کسانوں پر توجہ نہ دینے والوں کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں: شرد پوار
اُدگیر: ریاست کے کسان آج شدید مشکلات سے دوچار ہیں، مگر حکومت کی توجہ ان کے مسائل پر نہیں ہے۔ این سی پی کے قومی صدر شرد پوار نے اُدگیر میں ایک عوامی جلسے میں حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کسانوں کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں، انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریاست میں جرائم اور خواتین کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ بدلاپور جیسے افسوسناک واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔ ایک بچے کے ساتھ ناروا سلوک ہوا، ہزاروں بچیاں لاپتہ ہیں، مگر حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک حکمراں پارٹی کا ایم ایل اے تھانے میں جا کر گولی چلاتا ہے، جس سے قانون کی پاسداری کا حال عیاں ہے۔ شرد پوار نے زور دیا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے ریاست کی باگ ڈور مہاوکاس اگھاڑی کو دی جانی چاہیے۔
لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم مودی نے 400 سیٹیں جیتنے کا خواب دیکھا تھا اور ایسی کامیابی کے بعد ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جانی تھی۔ شرد پوار نے کہا کہ مہاراشٹر کے باشعور عوام نے ان کے منصوبے کو خاک میں ملا دیا اور انہیں ان کی جگہ دکھا دی۔ پوار نے کسانوں کی حالت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہ تبدیلی کے خواہاں تھے، مگر مودی حکومت کسانوں کے بجائے آئین میں تبدیلی کے عزائم رکھتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی کو 400 سیٹیں ملتیں تو وہ آئین میں تبدیلی کر کے عوام کے بنیادی حقوق کو محدود کر دیتے۔ شرد پوار نے کہا کہ مہاراشٹر کے لوگوں نے اس سازش کو سمجھا اور اسے ناکام بنا دیا۔
پچھلے دس سالوں سے ریاست میں بی جے پی کا نظریہ غالب ہے، جس سے ترقی کا عمل متاثر ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب مہاراشٹر صنعت اور زراعت میں سرفہرست تھا، مگر آج یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ ولاس راؤ کے دور میں اور میرے دور میں ریاست کی ترقی کو اولیت دی گئی تھی، مگر موجودہ حکومت نے یہ ترجیح ختم کر دی۔ ریاست میں کارخانے بند ہیں، نوجوان بے روزگار ہیں، پیاز، چینی اور سویابین کی برآمد پر پابندی سے کسان نقصان میں ہیں۔ پوار نے واضح کیا کہ جو حکومت کسانوں کا خیال نہ رکھے، اسے اقتدار سے بے دخل کر دینا چاہیے۔ شرد پوار نے کہا کہ مہاراشٹر کی صنعتیں گجرات منتقل ہو رہی ہیں، جبکہ وزیر اعظم کا تعلق پورے ملک سے ہوتا ہے، کسی ایک ریاست سے نہیں۔ تاہم مودی کا رویہ مختلف ہے، جس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انہیں اقتدار میں رہنے کا حق ہے۔