انل چمڑیا

جی-20 کے 19 ویں سربراہ اجلاس میں جو 18 اور 19 نومبر، 2024 کو برازیل میں منعقد ہوا، اس کے اعلامیے میں سماجی شمولیت،بھکمری کے خلاف، غریبی کے خلاف، زیادہ پیسے والو ںپر ٹیکس اور سرکاروں کے کام کاج میں اصلاح، ماحولیات کو بہتر بنانے کی کوشش اور توانائی کے سوال پر کہا گیا ہے کہ جی-20 کے ممالک مل جل کر اس سمت میں کام کریں گے۔ جی-20 کے اعلامیہ میں جن ایشوز کا ذکر کیا گیا ہے، وہ تمام ایشوز بھارت میں بھی سنائی پڑتے ہیں اور بھارت جی-20 کا اہم حصہ ہے۔

دراصل برازیل میں منعقدہ جی-20 کے علامیہ میں ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی ہوگی کہ بھارت میں جو ایشوز، جو مسئلے آتے ہیں، وہ صرف بھارت کے نہیں ہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے ایشوز اور مسئلے ہیں۔ اب جی-20 کے ممالک آپس میں مل جل کر ان ایشوز اور ان مسئلوں کو حل کرنے کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں لیکن جو ارب پتی لوگ ہیں، کیا ان پر ٹیکس لگا دینے سے مسئلے کا حل ہو جائے گا؟اس طرح جی-20 کے علامیہ پر کئی سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے مان لیں کہ ہم سماجی شمولیت کی باتیں کر رہے ہیں، سماجی شمولیت کا مطلب صرف ذات کی سطح پر محروم طبقات سے نہیں ہوتا ہے بلکہ صنف، زبان، مذہب، خطے ان تمام کی وجہ سے ہونے والی تفریق سے متاثرہ طبقات سے بھی ہوتا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا جن لوگوں کا حکومتی نظام پر، اقتصادی ذرائع پر اور سماجی ڈھانچے پر تسلط ہوتا ہے، وہ اپنی جگہ کوچھوڑنے کا عمل شروع کرنا چاہتے ہیں یا پھر اپنی لیڈرشپ میں ہی ان مسئلوں اور ایشوز کو درست کر لیں گے؟ تجربے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ بہت ممکن نہیں ہے۔ بھارت میں جو قانون بناتے ہیں، پالیسی بناتے ہیں، ان کا زیادہ تر حصہ کروڑ پتی اور ارب پتی ہیں۔ تو کیا وہ غریبی کو ختم کر سکتے ہیں؟

بھارت کے پارلیمنٹ میں اگر سب سے زیادہ کسی ایشو پر بات ہوئی ہے تو وہ غریبی اور بھکمری ہے لیکن یہاں غریبی بڑھی ہے۔ وزیراعظم کی باتیں مانیں تو وہ 80 کروڑ لوگوں کو مفت میں اناج مہیا کرا رہے ہیں۔ امیری عطیہ میں یقین کرتی ہے، حصے داری میں نہیں۔ دنیامیں غریبی اور بھکمری کے دائرے بڑھ رہے ہیں اور جو رقم، جوپیسے ہیں، وہ کچھ لوگوں کے پاس سمٹتے جا رہے ہیں۔ جی-20 کے ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ ان حالات میں دنیا بھر میں غریبی اور بھکمری کے شکار ہونے والے لوگ چپ چاپ بیٹھے نہیں رہیں گے۔ اسی لیے دنیا کو جی-20 کے پلیٹ فارم سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ سرکاریں اپنے کام کاج کے طور طریقوں کوسدھاریں تاکہ ان لوگوں کی تعداد کم کی جا سکے جو عدم اطمینان کے دائرے میں آرہے ہیں۔

ماحولیات کا مسئلہ غریبی اور بھکمری کے شکار ہو رہے لوگوں سے زیادہ ان لوگو ںکے لیے بحران کی وجہ بن رہا ہے جو کہ حکمراں کی شکل میں جانے جاتے ہیں۔ توانائی کی زیادہ ضرورت انہی لوگوں کو ہے اوریہ ماحولیات کو خراب کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے، اس لیے اس جی-20 کے اعلامیہ سے ہم بہت امید نہیں کر سکتے لیکن ہم اس بات کی تعریف کر سکتے ہیں کہ زمینی سطح پر جو ایشوز اور مسئلے بڑھ رہے ہیں، ان پر ان کی تشویش سامنے آرہی ہے۔

ان سب باتوں کے علاوہ عالمی برادری ان حالات کو بھی دیکھ رہی ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں گھریلو جدوجہد کی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ دوسری طرف ایک ملک دوسرے ملک پر حملے کر رہا ہے۔ روس-یوکرین کی جنگ اور غزہ پٹی، فلسطین پر حملوں کا دائرہ اور بڑھ رہا ہے۔ ایٹم بم کے استعمال کا انتباہ دیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ بچے، خواتین، معمر افراد اور غریب طبقے کے لوگ مارے جاتے ہیں، حالات سے متاثر ہوتے ہیں۔ جنگوں کے جاری رہتے ہتھیاروں کی ہوڑ دنیا بھر میں غریبی اور بھکمری کی بڑی وجہ بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں جی-20 کا بھکمری اور غریبی کے خلاف کوئی پروگرام بہت کامیابی حاصل کرے گا، اس پر عام لوگوں کے لیے یقین کرنا بہت مشکل ہے۔

(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS