پرویز احمد
سرینگر //عالمی ادارہ صحت کے مطابق پوری دنیا میں سال 2030تک 22سے 40سال تک کے 60ملین لوگ شوگر بیماری سے متاثر ہونگے اور بھارت میں یہ تعداد بہت زیادہ 79.4ملین ہوگی۔ بھارت میں شوگر مریضوں کے متاثر ہ پیروں پر کی گئی تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ 14فیصد مریضوں کے پیر شوگر کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ کشمیر کے حوالے سے تحقیق میں لکھا گیا ہے کہ کشمیر صوبے میں 40سے 50سال کے 8فیصد جبکہ 50سے 60سال کے 22فیصد لوگ شوگر کی بیماریوں سے متاثر ہیں۔ سکمز صور میں شعبہ پلاسٹک سرجری کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عادل حفیظ وانی کہتے ہیں کہ شوگر مریضوں کو تین اقسام کی بیماریاں ہونے کا ہمیشہ خطرہ لاحق ہوتا ہے، ان تین بیماریوں میں نیوروپتھی یعنی نظام اعصاب کا بگاڑ، خون کی سپلائی میں کمی اور انفیکشن شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان تین بیماریوں کی وجہ سے ٹریفک حادثات میں ٹانگیں اورپیر گنوانے والے لوگوں سے زیادہ مریضوں کو اپنے پیر یا ٹانگیں گنوانی پڑتی ہیں۔ ڈاکٹر عادل نے کہا ’’ شوگر بیماری سے جوج رہے مریضوں کو زندگی کے کسی نہ کسی موڈ پر نسوں کی مختلف بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں امراض قلب، گردوں اور دیگر امراض شامل ہیں ، لیکن ان سب بیماریوں میں سب سے زیادہ خطر ناک شوگر کی وجہ سے نظام اعصاب میں بگاڑ آنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نظام اعصاب میں بگاڑ کی زیادہ ترمتاثر ٹانگیں اور پیر ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے شوگر مریضوں کو احتیاط نہ برتنے کی صورت میں پیر اور ٹانگیںگنوانی پڑتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نسوں میں بگاڑ، خون کا جمنا، پیروں کے خدوخال میں تبدیلی، ورم، جلد کا ٹوٹنا، انفیکشن اور ہڈیوں کا گل جانا اس میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیر میں جان نہ رہنا شوگر سے پیروں اور ٹانگوں کا متاثر ہونا ایک بڑی علامت ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامتوں کی نشاندہی کے بعد مریضوں کو جلد ماہر ڈاکٹر کے پا س جاکر علاج و معالجہ کرنا چاہئے اور ساتھ ہی گھر میں احتیاطی تدابیر کو اپنانا چاہیے۔ ڈاکٹر عادل کا کہنا تھا کہ تمام شوگر مریضوں کو رات کو سونے سے پہلے پیر گرم پانی سے دھونے چاہئیں، خاص کر انگلیوں کے بیچ کی جگہ کو اچھی طریقے سے صاف کریں اور پھر Vasilineیا اور کسی Moisturiserپیروں میں لگائے تاکہ پیروں کو درکار نمی مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ شوگر مریضوں کو ہمیشہ بالخصوص موسم سرما میں اپنے پیروں اور ٹانگوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔ذیابیطس کا پھیلا دنیا بھر میں آسمان کو چھو رہا ہے، خاص طور پر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں۔ جموں و کشمیر بالخصوص کشمیر میں ذیابیطس کی موجودہ حالت تشویشناک ہے۔ جموں و کشمیر میں ڈی ایم کا پھیلا ئوقومی اوسط سے زیادہ ہے۔ انڈیا اسٹیٹ لیول ڈیزیز برڈن انیشیٹو (ISLDBI) کے مطابق، جموں اور کشمیر میں DM کا پھیلا ئو2019 میں 12.9% تھا، جو کہ قومی اوسط 10.9% سے زیادہ ہے۔ جموں و کشمیر میں ہر آٹھ میں سے ایک بالغ شوگر کے ساتھ رہ رہا ہے۔ دستیاب محدود وسائل کے پیش نظر، یہ یہاں صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔ مزید برآں، خطرناک شرح سے ذیابیطس کا بڑھتا ہوا پھیلائو، خاص طور پر نوجوان نسلوں میں، ایک سنگین تشویش کا باعث ہے۔جموں و کشمیر میں بالغ آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ کم از کم ایک این سی ڈی کے ساتھ رہ رہا ہے۔ جموں اور کشمیر میں سب سے زیادہ عام NCDs ہیں: قلبی امراض (CVD)، سانس کی دائمی بیماریاں، ذیابیطس mellitus، کینسر، اور Musculoskeletal عارضے ہیں۔