جموں و کشمیر کے تعلیمی سیشن میں بدلاؤ | نومبر سیشن مارچ سے بہتر کیوں؟

4 days ago 2

November 18, 2024

شیخ ولی محمد

6 نومبر 2024 کو حکومت جموں وکشمیر نے صوبہ کشمیر اور جموں کے سردی زونوں کے لیے سابقہ تعلیمی کلینڈر (نومبر سیشن) کی بحالی کا اعلان کیا ۔ یہ فیصلہ وزارتی کونسل کے 30 اکتوبر 2024 کے اجلاس میں منظور کردہ فیصلے کی روشنی میں کیا گیا ۔ سماج کے سبھی طبقوں بالخصوص طلباء والدین، اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے سرکار کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ اگست 2022 میں UT حکومت کی طرف تعلیمی سیشن کی منتقلی سے طلباء کو کافی الجھنوں ، پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ سے ان کا تعلیمی سفر کافی حد تک متاثر ہوا ۔ حالانکہ اس وقت یہاں بہت سارے ماہرین تعلیم جن میں مرحوم محمد شفیع پنڈت (سابق IAS آفسیر) اور بشیر احمد ڈار (سابق سیکرٹری بورڈ آف سکول ایجوکشین) قابل ذکر ہیں نے تبدیلی سیشن کی مخالفت کرکے حکومت سے گزارش کی تھی کہ وہ ریاست کی آب و ہوا اور دیگر چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں پر نومبر سیشن ہی کو برقرار رکھا جائے ۔ ریاست کے تعلیمی منظرنامے پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہاں پر 1974 تک مارچ تعلیمی سیشن ہی ہوا کرتا تھا ۔ تعلیمی سیکٹر میں بہتری لانے کے لیے 1972 میں تعلیمی اصلاحات کا آغاز ہوا ۔ اس وقت کے گورنر اور پدما بھوشن ایوارڈ یافتہ شری بھگوان سہائے کے دور حکومت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے بھگوان سہائے کمیٹی Bhaywan Sahay Committee سے جانا جاتا ہے۔ اس تعلیمی کمیٹی کے چیرمین خود گورنر تھے جبکہ ممبران میں سے ڈاکٹر آغا اشرف علی قابل ذکر ہیں ۔ تعلیمی سیکٹر میں بہتری لانے کے لیے کمیٹی نے انتھک محنت اور کوششوں کے بعد کئی ٹھوس تجاویز اور سفارشات سامنے لائیں ۔ جو 1973 میں حکومت کی طرف سے ایک مکمل رپورٹ کی شکل میں شائع کی گئی ۔ بھگوان سہائے کمیٹی نے حکومت کے سامنے جو سفارشات رکھیں ان میں ایک اہم سفارش یہ تھی کہ ریاست کا تعلیمی کلینڈر کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ تعلیمی ادارے کو کم سے کم 150 ایام کار. Working Days میسر ہو سکے۔ چنانچہ 1975ء تک مارچ کا پورا مہینہ اور اپریل کا بیشتر حصہ امتحانات اور رزلٹ کی نذر ہوتا تھا ۔ بورڈ امتحانات کے نتائج جولائی کے آخری دنوں میں ظاہر ہونے کی وجہ سے دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے کلاسز اگست میں شروع ہوتے تھے ۔ اس طرح ان کلاسز کے لیے تعلیمی سال کے دوران فقط 100 سے 120 ایام کار moving Days میسر ہوتے تھے۔ دیگر جماعتوں کی پڑھائی اور سکھائی کے لیے بھی کم ہی ایام کار میسر ہوتے تھے۔ اس مسلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے بھگوان سہائے کمیٹی کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے نومبر سیشن کی منتقلی کے احکامات صادر کئے۔ سکول بیسڈ اور بورڈ امتحانات نومبر ہی میں منعقد ہو۔ ابتدائی جماعتوں کے نتائج دسمبر میں آنے سے نئے کلاسز کی شروعات ہوئی ۔ اس کے بعد سرمائی تعطیلات کے دوران بچے نئے کلاسز کی کتابیں دلچسپی اور ذوق و شوق سے پڑھنے لگے ۔ جبکہ سرمائی تعطیلات کے دوران بورڈ آف سکول ایجوکیشن تدریسی عملہ سے Evaluation کا کام احسن طریقے سے لیتا رہا ۔ اس طریقہ کار سے یہ فائدہ ہوا کہ سکینڈری اور ہائرسکنڈری کلاسوں کے نتائج فروری کے آخر میں آنے لگے اور ساتھ ہی بچوں کا داخلہ نئے کلاسز میں ہوا ۔ مارچ سے لیکر اکتوبر تک ہائیر کلاسز کے لیے 190 سے لیکر 200 ایام کار کا دستیاب ہونا ممکن ہوا۔ جبکہ دیگر کلاسوں کے لیئے در کار ایام کار میں بھی اضافہ ہوا ۔ اس طرح بھگوان سہائے کمیٹی کی طرف سے رکھا گیا ہدف آسانی سے حاصل ہوا ۔ ساتھ ہی سرمائی تعطیلات تدریسی عملے کے لیے مفید ثابت ہوئیں کیونکہ اس مدت کے دوران حکومتی سطح پر اساتذہ کو تربیتی کورسز مہیا کیے گئے ۔ نومبر سیشن سے ایک اور فائدہ ہ یہ ہے کہ امتحانات کے دباؤ کے بعد بچے چھٹیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس دوران وہ سماجی اور دیگر من پسند کاروائیوں میں اپنے آپ کو مصروف رکھتے ہیں۔ کشمیر سے باہر تقریبا ہر جگہ امتحانات کے بعد تعلیمی اداروں میں تعطیلات ہوتی ہیں ۔ اس کے برعکس جب مارچ میں بچوں کا امتحان لیا جاتا ہے تو ساتھ ہی نئ کلاسز میں پڑھائی سکھائی کا کام شروع ہوتا ہے تو اس صورت میں بچے امتحانات کے منفی دباؤ سے باہر نہیں آسکتے۔نومبر سیشن کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کے بچوں کو ملکی سطح پر مسابقتی امتحانات جیسے BIT SAT، JEE ،NEET وغیرہ کی تیاری کے لیے کافی وقت میسر ہوتا ہے ۔ اس تعلیمی سیشن سے وابستہ بہت سارے فوائد کے باوجود 1984 میں مرحوم خواجہ غلام محمد شاہ کے دورحکومت میں پھر سے مارچ سیشن مقرر کیا گیا ۔ شفٹ کے لیے یہ ناقص دلیل دی گئی کہ مارچ میں امتحان منعقد ہونے کی صورت میں دیہی علاقوں کے بچے فصل کٹائی میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں ۔تاہم اس سسٹم کے نقصانات کو مد نظر رکھتے ہوئے 1986 میں اس وقت کے گورنر شری جگ موہن نے نومبر تعلمی سیشن کی بحالی کا حکم صادر کیا ۔ اس کے بعد بھی ملکی سطح پر یکسان سکولی کلینڈر کوبنیاد بنا کر تعلیمی سیشن کو بدلنے کی کوششیں کی گئیں لیکن 2007 میں State Advisory Board جسکی سربراہی پروفیسر JR Rathore (سابق چیرمین جے اینڈ کے بورڈ آف سکول ایجوکیشن) کر رہے تھے نے ان کوششوں کو ناکام بنا دیا ۔ جب 2019 میں ریاست جموں وکشمیر UT میں تبدیل ہوئی تو 2022 میں One Nation One Session کے تحت تعلیمی کلنڈر کو دیگر ریاستوں کے ساتھ جوڑا گیا ۔ اس تبدیلی سیشن سے وہی نتائج برآمد ہوئے جسکا اندیشہ تھا ۔ اب جب کہ نئی منتخب سرکار نے اقتدار میں آتے ہی تعلیمی کلینڈر کو پرانے ڈگر پر لانے کا فیصلہ کیا تو ہر طرف سے اس فیصلے کو سراہا گیا۔ اس وقت ہر جگہ یکسان ڈیٹ شیٹ کے تحت امتحانات منعقد ہورہے ہیں تو اداروں کے ذمہ داروں اور تدریسی عملہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نئی قومی تعلیمی پالیسی NEP 2020 کے تحت بچوں پر امتحانات کا غیر ضروری بوجھ ڈالنے سے اجتناب کیا جائے اور ساتھ ساتھ سرمائی تعطیلات کے دوران بچوں کو وہ ضروری چیزیں پڑھائیں اور سکھائیں جائیں جو 2024 میں سیشن کی کمی کی وجہ سے رہ گئی ہیں ۔
[email protected]

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article