جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کی حالیہ سیاسی ہلچل نے نہ صرف ہندوستانی جمہوریت کے مختلف پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے بلکہ ان سوالات کو بھی جنم دیا ہے جن کا جواب دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت سورین کی حلف برداری جہاں جمہوری اتحاد کی کامیابی کا مظہر ہے،وہیں مہاراشٹر میں حکومت سازی کے معاملے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال اور ای وی ایم پر اٹھنے والے سوالات نے انتخابی عمل کی شفافیت پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ہیمنت سورین کی قیادت میں جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) اور اس کے اتحادیوں نے 81 رکنی اسمبلی میں 56 نشستیں حاصل کرکے یہ ثابت کیا کہ مضبوط اتحاد اور عوامی مسائل پر توجہ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ کانگریس،آر جے ڈی اور دیگر اتحادیوں نے عوامی اعتماد جیتنے میں اہم کردار ادا کیا۔ حلف برداری کی تقریب میں اپوزیشن رہنمائوں کی موجودگی نے نظریاتی اختلافات کے باوجود اتحاد کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ تاہم،سورین پر بدعنوانی کے الزامات ان کی قیادت کیلئے چیلنج ہیں۔ عوام کے اعتماد کو برقرار رکھنے کیلئے شفافیت اور دیانت داری ان کی حکومت کیلئے ناگزیر ہیں۔
مہاراشٹر میں انتخابی نتائج کے بعد کی صورتحال جھارکھنڈ سے بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔ این ڈی اے کی بڑی کامیابی کے باوجود بی جے پی،شیوسینا (شندے گروپ) اور این سی پی (اجیت پوار گروپ) کے مابین وزارتوں کی تقسیم اور وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اتفاق رائے کا فقدان سیاسی پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ این ڈی اے اتحاد کو اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے اور مہاراشٹر کابینہ میں بی جے پی کے ساتھ شندے گروپ اور اجیت پوار گروپ کو اہم عہدے دیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر کون فائز ہوگا۔ ایکناتھ شندے نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے فیصلے کو قبول کریں گے،لیکن اس کے باوجود معاملات میں تاخیر یہ ظاہر کرتی ہے کہ اتحاد میں سب کچھ ٹھیک نہیں۔
مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے نہ صرف سیاسی بلکہ انتخابی عمل کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ای وی ایم کے استعمال پر پہلے سے موجود تحفظات ان انتخابات میں مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ مختلف حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں اور گنے گئے ووٹوں کے درمیان تضادات نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ انتخابی نظام میں خامیاں موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کے مطابق،مہاراشٹر میں ووٹنگ کا حتمی فیصد 66.05 فیصد تھا،جو 64,088,195 ووٹ بنتا ہے،لیکن گنتی کے دوران کل ووٹوں کی تعداد 64,592,508 درج کی گئی،یعنی 504,313 ووٹ زیادہ تھے۔ اسی طرح کچھ حلقوں میں پولنگ کے مقابلے گنے گئے ووٹ زیادہ تھے،جب کہ دیگر حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں سے کم ووٹ گنے گئے۔
نواپور اسمبلی حلقے میں 81.15 فیصد ووٹنگ ہوئی،یعنی 2,40,022 ووٹ ڈالے گئے،لیکن گنتی میں 2,41,193 ووٹ شمارکیے گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں جیت کا فرق محض 1,122 ووٹوں کا تھا۔ ایسے ہی اشٹی اور عثمان آباد کے حلقوں میں بھی گنتی میں تضادات سامنے آئے۔ اس طرح کی بے ضابطگیاں نہ صرف انتخابی نتائج کی ساکھ کو متاثر کرتی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی متزلزل کرتی ہیں۔
ای وی ایم کے استعمال پر بین الاقوامی سطح پر بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ کئی ممالک، جیسے جرمنی، نیدرلینڈز اور آئرلینڈ، ای وی ایم کے بجائے بیلٹ پیپرز کی طرف واپس جا چکے ہیں،کیونکہ وہ انتخابی عمل کی شفافیت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہندوستان میں،اگرچہ ای وی ایم کے حامی وقت اور وسائل کی بچت کے دلائل دیتے ہیں،لیکن یہ سوال بدستور موجود ہے کہ کیا ہم وقت کی بچت کے نام پر جمہوری اعتماد کو خطرے میں ڈال رہے ہیں؟
جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ جمہوریت کی کامیابی کیلئے اتحاد، شفافیت اور عوامی اعتماد کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ جھارکھنڈ میں اپوزیشن اتحاد کی کامیابی نے یہ سبق دیا کہ نظریاتی اختلافات کے باوجود، ایک مشترکہ مقصد کیلئے اتحاد عوام کو متحرک کر سکتا ہے۔
دوسری طرف،مہاراشٹر میں انتخابی عمل کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ انتخابی نظام پر عوام کا غیر متزلزل اعتماد ہو۔ ای وی ایم کے مسائل،ووٹوں کی گنتی میں بے ضابطگیوں اور شفافیت کے فقدان جیسے مسائل کا حل تلاش کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
جھارکھنڈ میں جمہوری اتحاد کی جیت اور مہاراشٹر میں انتخابی عمل کے مسائل ہندوستانی سیاست کے دو مختلف پہلو پیش کرتے ہیں۔ جہاں جھارکھنڈ نے اتحاد اور عوامی اعتماد کی اہمیت کو اجاگر کیا، وہیں مہاراشٹر نے شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر نظرثانی کی ضرورت کو واضح کیا۔ اگر ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کیا جائے تو ہندوستانی جمہوریت نہ صرف مضبوط ہوگی بلکہ دنیا کیلئے ایک مثال بنے گی۔ عوام کے اعتماد کو بحال کرنا اور انتخابی عمل کو شفاف بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہی جمہوریت کا اصل امتحان ہے اور یہی اس کا مستقبل۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS