محمد عباس دھالیوال
کسی بڑے گروپ کو جاننے، سمجھنے کے لیے اس کی تاریخ ضرور پڑھنی چاہیے، یہ جاننے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کہ اس گروپ کی تشکیل کے وقت دنیا کے حالات کیا تھے، اس کی تشکیل کے مقاصد کیا تھے، کیا ان مقاصد میں گروپ کو کامیابی ملی۔ جی-20 کی تاریخ دیکھیں تو معلوم پڑتا ہے کہ جون، 1999 میں جرمنی کے شہر کولون میں جی-8 کا اجلاس ہوا تھا۔ اس میں کنیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، امریکہ ، برطانیہ اور روس شامل تھے۔ اس سے قبل 1997 میں ایشیا کے مالیاتی بحران سے سبق سیکھتے ہوئے جی-8 کے ارکان نے اس گروپ میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے اسے جی-20 کے طور پر تشکیل دینے کا مسودہ تیار کیا۔ اس کی پہلی باقاعدہ میٹنگ ہوئی۔ دراصل جی-20 کے وجود میں آنے کا مقصد عالمی معیشت کو درپیش مشکلات سے بھرپور انداز میں نمٹنا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس گروپ کے اغراض و مقاصد میں وسعت آتی چلی گئی۔ آج جی-20 کے ایجنڈے میں ماحولیات، آب و ہوا، توانائی، کاشتکاری، بدعنوانی اور خوراک کا بحران جیسے ایشوز شامل ہیں۔برازیل میں منعقدہ جی-20 کے 19ویں سر براہ اجلاس کے اعلامیے میں غزہ، لبنان اور یوکرین جنگوں کے ذکر، مسئلۂ فلسطین کے دوریاستی حل کی تجویز، اسرائیل-لبنان سرحدوں پر جامع جنگ بندی کی حمایت، یوکرین جنگ کے عالمی خوراک اور توانائی کی سلامتی پر پڑنے والے منفی اثرات ذکر کیا گیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک اور سب کے لیے محفوظ دنیا کے ہدف پر زور دیا گیا ہے۔
برازیل کے صدر لولا دا سلوا نے 18 نومبر، 2024 کو جی-20 کے سربراہ اجلاس کا آغاز بھکمری اور غربت سے نمٹنے کے لیے عالمی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کیا۔ یہی اس بار کے سربراہ اجلاس کی مین تھیم بھی تھی۔ 80 سے زیادہ ممالک نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک غریبی اور بھکمری سے نمٹنے کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہیں مگر یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ جی-20 کے سربراہ اجلاس کا انعقاد اس وقت ہوا ہے جب امریکہ میں صدارتی انتخابات ہو چکے ہیں،انتخابی نتائج آچکے ہیں، نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں یہ بات سمجھی جاتی ہے کہ جنوری، 2025 میں عہدۂ صدارت سنبھالنے کے بعد وہ کئی بڑی پالیسیوں کو تبدیل کر دیں گے۔ ان کے دور میں یوکرین جنگ، موسمیاتی تبدیلی اور امپورٹ ڈیوٹی پر امریکہ کی پالیسی وہ نہیں ہوگی جو موجودہ امریکی صدر بائیڈن کے دور میں رہی ہے لیکن امید کا دامن کبھی چھوڑنا نہیں چاہیے اور برازیل کے صدر لولا دا سلوا مثبت سوچ والے لیڈر ہیں، برازیل کی ترقی میں ان کے رول کی بڑی اہمیت ہے۔ ان کا شمار جنوبی امریکہ کے ہی نہیں، دنیا کے بڑے لیڈروں میں ہوتا ہے۔ جی-20 کے سربراہ اجلاس کی افتتاحی تقریر میں لولا دا سلوا نے موسمیاتی تبدیلی کے دنیا بھر میں تباہ کن اثرات کی طرف توجہ دلائی اور یہ گزارش کی کہ جی-20 کے ارکان بھکمری، غریبی اور گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ ان کی اس بات سے عدم اتفاق کی گنجائش نہیں ہے کہ بھکمری اور غریبی سے نمٹنے کے لیے اتحاد کی بڑی ضرورت ہے۔لولا نے یہ اہم بات کہی کہ ’ بھوک اور غربت کسی فطری رجحان کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ سیاسی فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ ایک ایسی دنیا جو ہر سال تقریباً6 ارب ٹن خوراک پیدا کرتی ہے، اس میں بھوک اور غربت ناقابل قبول ہے۔‘ جی-20کے پچھلے سربراہ اجلاس کی طرح ہی اس بار کے بھی سربراہ اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے شرکت نہیں کی۔ ان کی نمائندگی روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کی۔ امریکہ کے صدر بائیڈن نے سربراہ اجلاس میں شرکت کی اور موسمیاتی اور ترقی کے نئے کروڑوں ڈالر دینے کا اعلان کیا۔
جی-20 کے سربراہ اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع اور مستقل ارکان میں اضافے کا ایشو اٹھا۔ اس ایشو پر واقعی سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہندوستان سلامتی کونسل کامستقل رکن نہیں ہے جبکہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی اسی ملک میں رہتی ہے اور اس کی بقائے باہم کی پالیسی نے دنیا کو متاثر کیا ہے۔ برازیل جنوبی امریکہ کا ایک بڑا ملک ہے۔ اس کے پاس سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں ہے بلکہ جنوبی امریکہ کے بھی کسی ملک کے پاس سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہیں۔ اسی طرح افریقہ کے بھی کسی ملک کے پاس مستقل رکنیت نہیں۔ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ مستقل ارکان کی تعداد میں آخر اضافہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ اضافے کے لیے بڑے اسٹیجوں سے آواز اٹھنی ہی چاہیے۔ یہ کہنے میں بھی تامل نہیں ہے کہ مستقل رکنیت کے لیے دنیا کے تمام دعویداروں میں ہمارا ملک ہندوستان ایک اہم دعویدار ہے اور اس سلسلے میں اس کی حمایت کئی ملکوں نے کرنے کا ارادہ ظاہر کیاہے۔
جی-20 کے سر براہ اجلاس میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر کئی عالمی لیڈروں سے ان کی ملاقات ہوئی۔ ان کے خطاب کی کئی باتیں سرخیوں میں رہیں۔ وزیراعظم نے دنیا کے حالات کے مطابق اپنی بات رکھی،اس لیے بھی ان کا خطاب اہمیت کا حامل تھا۔ یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہیے کہ اس بار کے جی-20 سربراہ اجلاس نے عالمی برادری کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں غریبی اور بھکمری اہم ایشوز ہیں۔ انہیں نظرانداز کرکے دنیا کی ترقی کی باتیں نہیں کی جا سکتیں۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ جی-20 کے ممالک غریبی اور بھکمری سے حالات کے مارے ہوئے لوگوںکو نجات دلانے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ افریقہ میں کام کیے جانے کی ضرورت ہے، کیونکہ افریقہ میں غریبی اور بھکمری دو اہم ایشوز ہیں۔ افریقی یونین جی-20 کا اہم حصہ ہے، اس کے چیئرمین نے افریقہ کے حالات کا احساس جی-20 کے ارکان اوردنیا کو دلانے کی کوشش کی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ حالات باتوں سے نہیں بدلتے، حالات بدلنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں، غریبی اوربھکمری سے لوگوں کو بچانے کے لیے جی-20 کے ارکان کو بھی عملی اقدامات کرنے ہوں گے اور عملی اقدامات کرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑے گی۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS