بوسٹن ڈائنامکس کا تیار کردہ ’سپوٹ‘ نامی روبوٹ کتا امریکی سیکرٹ سروس کا قومی سلامتی کے لیے جدید ترین ہتھیار ہے۔اس روبوٹ کتے کو حال ہی میں فلوریڈا کے پام بیچ میں نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مارا لاگو ریزورٹ کے اطراف میں گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
یہ روبوٹ کتے مسلح نہیں ہیں لیکن ان کو دور ریموٹ سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ان کے سیکورٹی گشت کے روٹ کو بھی پہلے سے پروگرام کیا جا سکتا ہے۔
سپوٹ نامی روبوٹک کتے کی ہر ٹانگ پر ایک سٹِکر لگا ہوا ہے جو راہگیروں کو خبردار کرتا ہے ’اس پر ہاتھ نہ پھیرنے کی کوشش نہ کریں۔‘مینلو کالج کی ماہر سیاسیات میلیسا مائیکلسن کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کوئی ان کتوں کو پیار کرنا چاہتا ہے۔ یہ دیکھنے میں بالکل پیارے نہیں لگتے۔‘
نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مارا لاگو ریزورٹ کے ارد گرد گھومتے ہوئے سپوٹ کی ویڈیو ٹِک ٹاک پر وائرل ہو گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو یہ کتے بہت پیارے لگ رہے ہیں اور کچھ لوگوں کو عجیب و غریب اور خطرناک جبکہ امریکی ٹاک شوز میں ان کا بہت مزاق بن رہا ہے۔
تاہم ان کتوں کے بارے میں ہنسنے والی کوئی بات نہیں ہے۔
امریکی خفیہ سروس کے مواصلات کے سربراہ انتھونی گگلیئیلمی نے بی بی سی کو ایک بیان میں کہا کہ ’نو منتخب صدر کی حفاظت اولین ترجیح ہے۔‘
امریکی صدارتی انتخاب سے چند ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ پر بظاہر دو بار قاتلانہ حملے کا نشانہ تھے۔ ان پر پہلا حملہ رواں سال جولائی میں امریکی ریاست پینسلوینیا میں ان کی انتخابی مہم کی ریلی کے دوران ہوا جبکہ دوسرا حملہ ستمبر میں مارا لاگو گولف کورس میں ہوا۔
ٹرمپ کی حفاظت کے لیے ان کتوں کے استعمال کے بارے میں جب بی بی سی نے امریکی سیکرٹ سروس سے پوچھا تو انھوں نے ’سیکورٹی وجوحات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
بی بی سی نے ان سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ٹرمپ کی سب سے اہم رہائش گاہ پر یہ کتے کب تعینات کیے گئے لیکن اس بارے میں بھی کوئی جواب نہ ملا۔
روبوٹ کتے بنانے والی کمپنی بوسٹن ڈائنامکس نے بھی اس بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا تاہم انھوں نے یہ ضرور بتایا کہ وہ سیکرٹ سروس کو سپوٹ روبوٹ فراہم کر رہے ہیں۔
رون ولیمز، ایک سابق سیکریٹ سروس ایجنٹ جو اب سکیورٹی اور رسک مینجمنٹ فرم ٹیلون کمپنیز کے سی ای او ہیں، کو شبہ ہے کہ ٹرمپ کے خلاف قاتلانہ حملوں کی وجہ سے سیکرٹ سروس ایجنسی کو محسوس ہوا ہے کہ ’اسے ٹیکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بروقت مستقبل میں ہونے والے حملے کے بارے میں پتہ لگایا جا سکے اور اسے روکنے کی صلاحیت موجود ہو۔‘
مارا لاگو میں جہاں ٹرمپ کی بہت ساری جائیداد ہے ان کے بارے میں رون ویلیمز کا کہنا ہے کہ ان روبوٹ کتوں کو وہاں بہت پہلے ہی آ جانا چاہیے تھا۔
انھوں نے کہا کہ انسانوں کے مقابلے یہ ’روبوٹ کتے ایک وسیع رقبے پر سکیورٹی کر سکتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ یہ روبوٹ کتے مستقبل میں عام نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
اور یہ روبوٹ کتے صرف سیکرٹ سروس ہی نہیں بلکہ رون ولیمز کے مطابق، انھیں افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
بوسٹن ڈائنامکس کے تشہیری مواد کے مطابق امریکی ریاست پنسلوانیا کی مونٹگمری کاؤنٹی میں ایک بم سکواڈ ممکنہ دھماکہ خیز مواد کا معائنہ کرنے کے لیے ان کتوں کا استعمال کرتا ہے۔
خبروں کی ویب سائٹ وائرڈ کے مطابق گذشتہ سال نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے ان روبوٹ کتوں کو اپنی فورس میں شامل کر لیا تھا جبکہ ان پر تنقید کی گئی تھی کہ پولیس اپنی طاقت کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
دوسری یوکرین کے اخبار کیئو پوسٹ کے مطابق یوکرین نے 2022 میں روس کے حملے سے شروع ہونے والے جاری تنازعے میں جاسوسی کے لیے ان روبوٹ کتوں کا استعمال کیا ہے۔’پھرتی، متعدد کیمروں اور تھرمل سینسرز سے لیس کتے‘
سپوٹ اپنی پھرتی اور تیز رفتاری کے لیے جانا جاتا ہے۔ یہ سیڑھیوں پر اوپر اور نیچے آ جا سکتا ہے اور تنگ جگہوں سے بھی گزر سکتا ہے، یہ دروازے بھی کھول سکتا ہے۔
تاہم ان کتوں کی ممکنہ خطرات کو ظاہر کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے بہت ساری ایجنسیاں ان کو خریدنے کے 75 ہزار ڈالرز یا دو کروڑ روپے تک ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
سیکرٹ سروس مواصلات کے سربراہ انتھونی گگلیئیلمی نے کہا کہ روبوٹ کتے ’نگرانی کرنے کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اور ہمارے حفاظتی کاموں میں معاونت کرنے والے جدید سینسرز سے لیس ہیں۔‘
بوسٹن ڈائنامکس کے مارکیٹنگ مواد کے مطابق یہ روبوٹ کتے متعدد کیمروں سے لیس ہے جو ان کے گردونواح کا تھری ڈی نقشہ تیار کرتے ہے۔ ان کتوں میں تھرمل سینسنگ جیسی اضافی چیزیں بھی لگائی جا سکتی ہیں۔‘
لیکن یہ روبوٹ کتے اپنے مالک کے بغیر کچھ نہیں ہیںجارج میسن یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی پروفیسر مسی کمنگز جو آٹونومی ایںڈ روبوٹکس سینٹر کی سربراہ ہیں نے بتایا کہ ’ایک جوائے سٹک ہوتی ہے جو ان کتوں کو قابو میں رکھتی ہے۔‘ تاہم سپوٹ کے پروگرام میں جو راستے انسٹال ہوئے ہوئے ہیں وہ ان پر خود سے چل پھر سکتے ہیں۔
انسان اور اصلی کتوں کے برعکس اگر روبوٹ کتوں کی توجہ کوئی چیز دیکھنے، آواز سننے یا خوشبو سونگھنے سے نہیں پھرتی۔
ان روبوٹ کتوں میں کئی خصوصیات ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں شکست دی جا سکتی ہے۔
پروفیسر مسی کمنگز نے بتایا کہ ’آپ کو زیادہ کچھ نہیں کرنا بس ’ایکوا نیٹ‘ نامی بالوں پر کرنے والا سپرے ان کتوں کے چہرے پر کرنا ہے اور اس سپرے کے ذریعے ان کے کیمرے خراب کیے جا سکتے ہیں۔‘
اگرچہ مارا لاگو میں نظر آنے والا روبوٹ کتا مسلح نہیں ہے لیکن پروفیسر کمنگز کے مطابق متعدد ٹیک کمپنیاں ایسے ماڈلز کا تجربہ کر رہی ہیں۔
پروفیسر کمنگز نے کہا کہ لوگ ان کتوں کو مسلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے رواں ہفتے میں ہی ایک میٹنگ میں ایک چینی ماڈل دیکھا جس میں اس روبوٹ کتے کے ساتھ رائفل لگی ہوئی تھی۔
مینلو کالج کی ماہر سیاسیات میلیسا مائیکلسن کا کہنا تھا کہ یہ کتے انسانوں کی جگہ لینے نہیں آ رہے۔ ان کی رائے میں یہ روبوٹ کتے ان ٹیکنالوجی سے لیس گاڑیوں کی طرح ہیں۔
’ہمیں گاڑیوں پر کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ خود سے چل سکتی ہیں۔‘مارا لاگو میں تعینات سیکرٹ سروس ایجنٹس سپوٹ کے ساتھ ساتھ گشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
میلیسا مائیکلسن نے کہا کہ ’ہمیں انسانوں کی ضرورت تو ہمیشہ رہے گی تاکہ ہم صورت حال کو سمجھ سکیں اور اگر ٹیکنالوجی ناکام ہو جائے تو وہاں مداخلت کر سکیں۔‘