! رخشندہ ؔرشید۔ سکوت ِ شب کی ملکہ

1 hour ago 1

سہیل سالمؔ

سمندروں اور دریائوں کا سفر طے کر کے’’صدف‘‘کے روپ میں اپنی انفرادیت قائم کرنے والا یہ خوبصورت لہجہ رخشندہ رشیدؔ کا ہے۔جس نے بیسویںصدی میں اپنی تخلیقی قوت کے ذریعے باذوق قارئین کونہ صرف متاثر بلکہ کشمیر میں اردو شاعرات کی تاریخ کو ایک نیا اور اہم موڈ بھی دے دیا۔رخشندہ ؔ تخلص اور اصلی نام رخشندہ رشید۔کم عمری میں ہی شعر وسخن کی طرف راغب ہوئی۔پہلا شعری مجموعہ ’’صدف ‘‘ کے نام 2001 میں ادبی دنیا میں متعارف ہوچکا ہے۔’’سکوت شب ‘‘ رخشندہ رشید کا تازہ شعری مجموعہ ہے جو کہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے۔غزل اور نظم میں معاشرے کی ناہمواروں اور بے اعتدالیوں پر سوال قائم کرتی ہے۔اخلاقی قدروں کے زوال کا بھی پردہ فاش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں فرد کے ذاتی دکھ درد ،اس کی ناکامیوں اور محرمیوں اور انسانی ہمدردی کے گہرے جذبات کو بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔جب وہ معاشرے میں احسان فراموشی ، آگ کی پرستش اورمکروفریب کو دیکھتی ہے تو اس طرح سے لکھتی ہیں ۔؎

آزما کر بھی وفا دیکھی ہے
خون آلودہ قبا دیکھی ہے
ان کے ہاتھوں کی لکیریں گن لیں
اپنی آنکھوں کی خطا دیکھی ہے
زلف بکھرے ہوئے لبوں پہ نالے
اور ہاتھوں میں رد ا دیکھی ہے

رخشندہ رشیدؔکی شاعری میں داخلی اور خارجی جذبات و احساسات کے دریا بہتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔جس میں تہذیب و شائستگی کے ساتھ عشق و محبت کی پاکیز گی کا عکس بھی نظرآتا ہے۔۔آپ ایک غزل گو شاعرہ ہیں جس نے غزل کی آبرو اور اس کی روح میں اترنے کی کوشش بھی کی ہے۔ رخشندہ رشید نے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ غزلوں میں زندگی کے ان تمام چھوٹے بڑے مسائل کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ استعاروں میں سمیٹا ہے جن میں زندگی اور سماج کے کئی اہم پہلوئوں کی سچائیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی باعث ان کی غزلوں میں سماج کی مختلف صورت حال سے پنپنے والے درد اور کسک کو نئے افہام و تفہیم کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ ؎

کل میر ا آنچل نچوڑا آپ نے
سوکھے کانٹوں پہ چھوڑا آپ نے
جڑ نہ پایا پھر کبھی وہ آئینہ
جو سر بازار توڑا آپ نے
اب وہ پہلی سی ہوا چلتی نہیں
اک بھرم تھا وہ جو توڑا آپ نے

ان کے شعری موضوعات کا دائرہ کافی وسیع ہیں۔رخشندہ رشید انسانی حقیقت کے راستے پر سفر کرتے ہوئے انھوں نے جس طرح فکر وشعورکو نئے جلا بخشی ہے کہ وہ حیات و کائنات کے نشیب وفراز پر بھی گہری نظر رکھتی ہے۔عام لوگ اپنی تاریخ سے کھیل رہے ہیں۔زندگی کا معنی بدلتا جارہا ہے۔انسان رنگ ،نسل،ذات پات ،زبان اور تہذیب میں الجھ رہا ہے اور رخشندہ رشید نے بھی ان مسائل کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ رخشندہ رشیدکے جذبہ انسانیت میں اخلاص کر فرما ہے۔ان کی غزلوں میں انسانی اور حقیقی رنگوں کا مسکن بھی پایا جاتاہے۔آپ اپنی شاعری میں اسرار حیات کی نقاب کشائی کرتی ہیں۔ ’’سکوت شب ‘‘ میں اس کی کئی مثالیں دیکھی جاسکتی ہے۔

رخشندہ رشید کی غزلیں ان کی اپنی زندؔگی اور اپنے آپ پاس کی آئینہ دار ہیں۔۔انہوں نے آپ پا س کی سماجی بدبو اور اردگرد کے پر آشوب حالات ومعاملات کو موضوع بنایا ہے اور اپنے جذبات و احساسات کو سماجی شعور کے ساتھ پیش کیا ہے۔ان کی غزلوں میں عصر حاضر کے رزمیہ کے عناصر بھی موجود ہیں اور ساتھ ہی فنی مہارت کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں۔بدلتے ہوئے اقدار اور سماجی حالات نے انسان کو اداسی ،پریشانی اور غم کے ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ ہماری زندگی کا رنگ و روپ سب تبدیل ہوگیا۔رخشندہ رشید ؔکی غزلیں تغیر پذیر فکر اور عہد حاضر کی بے بسی کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔انھوں نے ذاتی تجربات کو سادگی سے غزل کے پیکر میں ڈھال کر پیس کیا ہے۔انسانی دکھ اور درد کو اپنا دکھ درد سمجھا ہے۔نفرت اور عدوات کے خلاف ہمیشہ جنگ لڑتی رہی۔ ؎
بیتے موسم کا اثرباقی رہا
اب کی شبنم میں زہر باقی رہا
اک درد لادوا مل تو گیا
ساتھ میں خوف و خطر باقی رہا
میرے اور چلتی رہی ٹھنڈی ہوا
اک یخ بستہ شہر باقی رہا

رخشندہ رشیدؔ نئی غزل کا ایک تابندہ نام ہے جس نے اپنے فکری قوت کے ذریعے ایک نئی شعری راہ قائم کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ ایک فرد کی بے بسی سے لے کرزندگی کے مختلف رنگوں کو رخشندہ نے اپنی شاعری کا حصہ بنایا ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’سکوت شب ‘‘ پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ رخشندہ کے یہاں مضامین کا تنوع ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں تشبہیات ،استعارات اور تراکیب کا استعمال کر کے اپنے تخلیقی بصیرت کا ثبوت پیش کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں معنی و مفاہیم کی ایک نئی دنیاآباد کرتی ہے۔
صدیوں کے بعد خود پہ اگر اعتبار ہے
گم سم ہے نظر اور جگر تار تار ہے
وہ غم گسار ہیں کہ میرے رازدار ہیں
زلفیں اداس اور نظر پر خمار ہے

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article