سہیل بشیر کار،بارہمولہ
نشہ کی بہت سی قسمیں ہیں،کوئی ساغر و مینا سے شغلِ مےکشی کرتا ہے تو کوئی محبوب کے لب و رخسار اور گیسوئے خمدار دیکھ کر بہکنے لگتا ہے۔ عہدِ حاضر میں محبوب سے بڑھ کر جو آلہ ہر نوجوان کے ہاتھوں دل و دماغ پر آسیب بن کر چھایا ہے، اُس محبوب کا نام ’’موبائل فون‘‘ ہے۔یہ ایسا نشہ ہے کہ جس نے ایک بار چکھ لیا وہ ہمیشہ کے لئے اس کا عادی ہوگیا۔یہ آلہ ایک ایسی مقراض ہے جس نے رشتوں میں موجود محبت و یگانگت کو کاٹا، کتابوں سے ہمارا رشتہ منقطع کیا، اپنے گھر میں رہ کر ،اپنوں کے بیچ رہ کر بھی ہمیں اُن سے کافی دُور کیا۔
اگر ان چیزوں کی فہرست بنائی جائے جنہوں نے انسان کی انفرادی زندگی پر سب سے زیادہ اثرات ڈالے ہیں تو ان میں سرفہرست نام موبائل فون کا ہوگا۔شاید ہی کوئی فرد ہوگا جو موبائل استعمال نہ کرتا ہو،اکثریت اسمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔جہاں موبائل کے بے شمار فوائد ہیں وہیں بہت سے نقصانات بھی ہیں۔
دور جدید کے انسان کو جن چیزوں کی لت پڑی ہے ان میں موبائل فون سرفہرست ہے۔انسان اپنا بیشتر وقت موبائل پر صرف کرتا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کو موبائل کے مضر اثرات سے بچایا جائے۔برادر انجینئر ایس امین الحسن ایک داعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑے سائکالوجیسٹ ہیں۔ 84 صفحات کی زیر تبصرہ کتاب ’’موبائل فون کی لت (خود بچیں، اپنے بچوں کو بچائیں)‘‘ میں انجینئر ایس امین الحسن نے موبائل کی لت سے بچنے کی ترکیب دی ہے۔آج والدین اس بات سے پریشان ہیں کہ ان کے بچوں کو موبائل کی لت پڑی ہے جس سے ان کے اندر نفسیاتی اور سماجی برائیوں نے جنم لیا ہے، اپنے بچوں کو موبائل کی اس لت سے کیسے بچایا جائے؟ زیر تبصرہ کتاب اس سلسلے میں اہم پیش کش ہے،جس کو مصنف نے 5 ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
پہلے باب ’’گیجٹ کا استعمال اور بچوں کی نفسیات‘‘ میں مصنف نے 6 سے 14 سال کے بچوں کو پیش نظر رکھکر گیجٹ کے استعمال اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ گیجٹ کے استعمال کے سلسلے میں بچوں کے تین رویے ہو سکتے ہیں:
(۱ )گیجٹ کا استعمال(۲) گیجٹ کا کثرت کثرت سے استعمال اور(۳) گیجٹ کا غلط استعمال ۔مصنف نے اس باب میں واضح کیا ہے کہ گیجٹ کے کثرت استعمال سے کون سے نفسیاتی اور جسمانی نقصانات ہو سکتے ہیں۔مصنف لکھتے ہیں،’’امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹریکس کے رہ نما خطوط کے مطابق تین سال سے کم بچے صفر گھنٹے ، تین تا پانچ سال کے بچے ایک گھنٹے اور چھ سے اٹھارہ سال کے بچے دو گھنٹے فی یومیہ گیجٹ کا استعمال کر سکتے ہیں، اس میں تعلیم و تفریح دونوں شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اوسطاً ان کی سفارش کردہ الاؤنس سے چار گنا زیادہ گیجٹ پر وقت صرف کرتے ہیں۔ ایک اور تحقیق کے مطابق چھ سال سے اٹھارہ سال کے بچوں کو روزانہ چالیس منٹ سے زیادہ گیجٹ کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (صفحہ 13) ۔مصنف لکھتے ہیں کہ سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ جب گیجٹ کا غلط استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے بے شمار منفی نتائج برآمد ہوتے ہیں،اس سلسلے میں انہوں نے کچھ چوکنّا کرنے والے اعداد شمار بھی دیے ہیں۔
دوسرے باب’’ موبائل فون کی لت نقصان دہ ہے ‘‘ میں مصنف نے جنریشن زی (generation Z) کا ذکر کیا ہے۔مصنف لکھتے ہیں: ’’2012 ء سے 2022 ء کے درمیان کیے گئے ایک دس سالہ سروے میں یہ حیران کن نتائج سامنے آئے ہیں، جب نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ وہ کتنی دیر تک فون استعمال کرتے ہیں تو ان میں سے اکثر نے بتایا کہ جب تک وہ جاگتے رہتے ہیں مسلسل آن لائن رہتے ہیں۔ کچھ افراد کا اسکرین ٹائم دس گھنٹے تک تھا، کچھ کا پانچ گھنٹے اور کچھ کا تین گھنٹے، لیکن ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو تقریباً ہر وقت آن لائن رہتی ہے۔(صفحہ ۔18 )مصنف لکھتے ہیں کہ یہ جو موبائل کا بے ہنگم استعمال ہو رہا ہے اس سے نوجوانوں کو چار بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے:
سماجی محرومی، بے خوابی کی شکایت، توجہ کی کمی ۱ور ایڈکشن ۔مصنف نے یہاں اعداد و شمار بھی پیش کیے ہیں ۔اس کے بعد مصنف مندرجہ ذیل حل بتاتے ہیں:(۱)
نماز(۲) لغویات سے دور رہنے کی قرآنی تعلیمات(۳) تزکیہ اور(۴) شرم گاہوں کی حفاظت۔
تیسرے باب ’’خواہشات پر قابو پانا‘‘ میں قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں موجود ایسے قیمتی اصولوں کو پیش کیا گیا ہے، جو ہماری طرز زندگی میں ایک ڈسپلن لاتا ہے۔ہم کس طرح اپنی خواہشات کو قابو میں رکھیں پھر مصنف نفسیاتی اصولوں، کونسلنگ کی ٹکینٹوں اور لائف کوچنگ کے پروگرام اور سلیف ہیلپ کے طریقوں کو ملاتے ہیں جس سے طاقت ور فریم ورک بن جاتا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ: ’’قرآن کی تعلیمات جب خلوص نیت سے اپنائی جائیں تو نوجوانوں کو ان کے نفس پر قابو پانے میں مدد دیتی ہیں اور انھیں موبائل فون اور گیجٹ کی لت کے دور میں متوازن اور با مقصد زندگی گزارنے کے قابل بناتی ہیں۔‘‘(صفحہ 42)
خواہشات پر قابو پانے کے سلسلے میں انہوں نے دو ماڈل بیان کیے ہیں ایک یوسفی کردار یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کی کہانی اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل۔مصنف ماہر نفسیات ہیں،کتاب کے چوتھے باب’’ لت سے نجات کے نفسیاتی طریقے‘‘ میں مصنف نے اس لت سے بچنے کے نفسیاتی طریقے بیان کیے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ گیجٹ کے استعمال کے لحاظ سے نوجوانوں کی تین درجے پائے جاتے ہیں۔
۱۔ گیجٹ کی ہلکی لت،(۲) گیجٹ کی درمیانی لت،(۳) گیجٹ کی شدید لت۔ مصنف لکھتے ہیں کہ کہ کالج کی تعلیم ختم ہونے تک اسمارٹ۔فون کے بغیر زندگی گزارنا ممکن ہے اگر گھر میں کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ ہو یا لائبریری میں یہ سہولیت ہو تو یہ تعلیم کی ضرورت پوری کر سکتے ہیں۔مصنف نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ انہیں چاہیے کہ وہ سمارٹ فون تعلیم کے دوران نہ رکھیں اور اگر اس بات کا یقین ہو کہ نوجوان اسمارٹ فون کو سمجھ داری سے استعمال کر سکتے ہیں اور اس کے نقصانات سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں تو پھر انٹرنیٹ کے استعمال کی حدود مقرر کرنی ہوگی ۔اس سلسلے میں وہ کچھ ایسے فیچر بھی بتاتے ہیں جو طلبہ اپنے موبائل ڈیوائسوں پر نامناسب مواد سے بچنے کے لیے آن یا آف کر سکتے ہیں۔
اس باب میں مصنف گیجٹ کی درمیانی لت کی کچھ علامات بیان کرتے ہیں جیسے نمازوں کے فوراً بعد، میٹنگوں کے دوران اور ڈائنگ ٹیبل پر موبائل کا بے جا استعمال، مصنف کہتے ہیں کہ موبائل کو بار بار چیک کرنے سے ہم کاموں پر توجہ مرکوز نہیں کر پاتے، اس کے بعد مصنف اس باب میں ایک اہم ٹکنیک delayed gratification ٹکنیک بیان کرتے ہیں اس ٹکنیک کے ذریعہ فوری لذت کو روک کر کسی بڑے اور دیرپا فائدہ کا انتظار کیا جاتا ہے۔دوسری ٹیکنیک وہ affirmative aforesaid speech بیان کرتے ہیں۔ان طریقوں سے درمیانہ درجہ کا گیجٹ استعمال کرنے والوں کو رہنما خطوط ملتے ہیں، وہ افراد جو گیجٹ کی شدید لت میں مبتلا ہیں، دراصل ایک طرح کے نشہ میں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس نشہ میں مبتلا ہیں تو اس کو چاہیے کہ وہ موبائل ڈی ایڈکشن سینٹر جائے۔ہندوستان کے ایک سینٹر Nimhans کا وہ تعارف بھی کرواتے ہیں، اس باب میں مصنف نے CBT کا بھی تعارف کروایا ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ: ’’موبائل کی لت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جتنا انسان اس میں غرق ہوتا ہے، اتنی ہی زیادہ وہ گہرائی میں ڈوبتا جاتا ہے۔ جیسے بچے ایک کھلونے سے بار بار کھیل کر بور ہو جاتے ہیں اور نئے کھلونے طلب کرتے ہیں، اسی طرح انسان فون پر مختلف مواد دیکھ کر جب اکتاہٹ محسوس کرتا ہے تو وہ مزید سخت اور منفی مواد کی طرف بڑھتا ہے، جو اسے مزید برائیوں میں مبتلا کر دیتا ہے اور یوں وہ برائیوں کے چکر (vicious cycle) میں پھنس جاتا ہے، کبھی بے چینی موبائل کے استعمال کی طرف مائل کرتی ہے تا کہ وقت گزارا جا سکے اور کبھی تنہائی انسان کو ستاتی ہے، اس تنہائی سے بچنے کے بہتر طریقے یہ ہیں کہ نوجوان کھیل کود میں حصہ لیں ، اچھے دوستوں کی صحبت میں وقت گزاریں یا سماجی خدمت کے لیے میدان میں نکلیں ۔ لیکن اس کے بجائے وہ موبائل کو اپنا ساتھی بنا لیتے ہیں جو بعد میں شیطان کی طرح بدترین ساتھی ثابت ہوتا ہے۔‘‘ (صفحہ 61)
کتاب کے آخری باب’’ ڈیجیٹل دنیا سے حقیقی زندگی کی طرف ‘‘میں مصنف نوجوانوں کو سمجھاتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین جاننا ہوگا مصنف لکھتے ہیں کہ جب انسان اس حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے کہ وہ منفرد ہے تو پھر جس کے لیے اس کی پیدائش ہوئی ہے اس بات کو نفسیاتی زبان میں aforesaid actualization کہا جاتا ہے۔مصنف نوجوانوں کو دردمندی سے سمجھاتے ہیں: ’’آج کے نوجوانوں کو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ زندگی کا مقصد صرف فون، گیجٹ ، گیم اور سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنا نہیں ہے۔ یہ چیزیں وقتی تفریح فراہم کرسکتی ہیں لیکن حقیقی کامیابی اور خوشی تب حاصل ہوتی ہے جب انسان اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان کر انھیں نکھارنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ ہر پہلا قدم اگلے قدم کے لیے تحریک بنتا ہے۔ دن کے اختتام پر وہ سکون محسوس کرتا ہے کہ اس نے ایک مثبت دن گزارا اور جب نیادن شروع ہوتا ہے تو اس کے سامنے اپنے آپ کی بہتری، والدین کو خوش رکھنا، گھر یلو ضروریات پوری کرنا ، معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا، رشتوں کا احترام اور انسانیت کی خدمت جیسی اہم ذمہ داریوں کی فہرست ہوتی ہے۔‘‘ (صفحہ 67)
مصنف اس باب میں خود شناسی پر خوبصورت بحث کرتے ہیں، لکھتے ہیں خود شناسی دراصل خداشناسی کی کنجی ہے، اسلام میں خود شناسی کا تصور خدا شناسی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد مصنف قرآن کریم کی آیات پیش کرتے ہیں۔مصنف مزید لکھتے ہیں’’قرآن یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ انسان کی زندگی صرف اس کی ذاتی خواہشات اور ضروریات تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کا مقصد اللہ کی عبادت اور انسانیت کی خدمت ہونا چاہیے۔ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے خالق سے متعارف کروایا جائے اور انھیں اس سے وابستہ کیا جائے۔ ان کی دنیاوی ضروریات کو پورا کرنا بھی خدمت کی ایک اہم شکل ہے، لیکن اس کے لیے انسان کو اپنی ذاتی خواہشات سے بالاتر ہونا پڑے گا ۔ جب انسان خلوص نیت کے ساتھ دوسروں کی بھلائی اور اللہ کے راستے میں کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی زندگی کو مثبت سمت میں لے جاتا ہے اور اس کےعمل کے بہترین نتائج عطا کرتا ہے:’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے، اُنھیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے اور یقیناً اللہ نیکوکاروں ہی کے ساتھ ہے۔‘‘(صفحہ 70)
اس باب کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص اپنی زندگی میں ایسا معنی اور مقصد تلاش کرے جو دوسروں سے لازمی طور مختلف ہو۔یہ کتاب اگرچہ مختصر ہے لیکن دور حاضر کے ایک اہم مسئلہ کا نہ صرف جائزہ لیا گیا ہے بلکہ حل بھی مصنف نے بتایا ہے۔یہ کتاب قاری کو انشاء اللہ بہت فائدہ دے گی ۔کتاب کو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی نے عمدہ گیٹ اپ میں چھاپا ہے۔کتاب کی قیمت 80 روپے ہے۔یہ کتاب واٹس اپ نمبر 7290092403 سے حاصل کر سکتے ہیں۔
( رابطہ۔ : 9906653927)
[email protected]
�����������������