Last updated نومبر 10, 2024
انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر میں مسلم ووٹر کیوں اہم ہیں، مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 1.3 کروڑ ہے؟ جو ریاست کی کل 11.24 کروڑ آبادی کا 11.56 فیصد ہے۔
ریاست کی 288 اسمبلی سیٹوں میں سے 38 اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 فیصد ہے۔ ان میں سے 9 نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی 40 فیصد سے زیادہ ہے۔
مہاراشٹر کی راجدھانی ممبئی کی بات کریں تو یہاں 10 سیٹوں پر 25 فیصد سے زیادہ آبادی مسلمان ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات میں مہاوکاس اگھاڑی کو بڑی تعداد میں اقلیتی ووٹ ملے تھے۔
اب جانئے مہاراشٹر کے انتخابات میں کتنے مسلم امیدوار ہیں۔
مہاراشٹر کی 288 اسمبلی سیٹوں کے لیے کل 4,140 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان میں مسلم امیدواروں کی تعداد معمولی ہے۔ مہاوتی کی بات کرتے ہوئے بی جے پی نے اس میں شامل کسی مسلم لیڈر کو ٹکٹ نہیں دیا۔ شندے دھڑے کی شیوسینا نے ایک مسلم امیدوار کھڑا کیا ہے، جب کہ اجیت پوار کی این سی پی نے چار مسلم لیڈروں کو ٹکٹ دیا ہے۔
مہاویکاس اگھاڑی میں، شیو سینا کے ادھو دھڑے نے بھی ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے، جب کہ کانگریس نے آٹھ، این سی پی-شرد دھڑے اور ایس پی نے ایک ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے۔ ساتھ ہی، اویسی کی پارٹی اے آئی ایم آئی ایم نے انتخابات میں 14 امیدوار کھڑے کیے ہیں، جن میں سے 10 مسلمان ہیں۔
مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات میں مسلمانوں کی حصے داری ضروری
حالیہ لوک سبھا الیکشن میں ملک کے مسلمانوں نے جس سیاسی بیداری کا ثبوت دیا ہے، وہ شاید آزادی کے بعد سے لے کر آج تک کیلئے ایک مثال ہے اور اپنے آپ میں ایک تاریخ ہے۔ بے شک ہماری بیداری سے حکومت تو بدل نہیں سکی لیکن ایک مضبوط حزب مخالف طاقت ایوان میں ضرور کھڑی ہوگئی۔ جو لوگ چار سو پار کے نعرے لگا رہے تھے اور نادانی کی انتہا کہ وزیراعظم نتائج سے دو دن پہلے ہی۱۰۰؍ دنوں کے منصوبے بنا رہے تھے، انھیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بے لگام گھوڑے کو ملک کے سیکولر، دلت، آدی واسی اور مسلم ووٹروں نے لگام لگانے کا کام کیا ہے۔ جو لوگ ملک کے دستور کو بدلنے کے اعلانا ت کررہے تھے، وہ آج اندھیروں میں اپنا منہ چھپا کر بیٹھے نظر آرہے ہیں۔ بی جے پی کو اور کراری ہار کا سامنا کرنا پڑتا اگر مایا وتی جی کی وجہ سے بی جے پی کے ۱۶؍ امیدوار اور چن کر نہیں آتے۔ بی جے پی کے۷۹؍ امیدوار محض ۱۵۰۰؍ سے ۵؍ ہزار ووٹوں کے معمولی فرق جیت کر نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بنا لینے کے بعد بھی ان کے چہروں پر وہ خوشی نظر نہیں آئی جو حکومت بنانے میں ناکامی پر بھی ’انڈیا‘ اتحاد کے اراکین کے چہروں پر نظر آئی ہے۔ مسلمانوں اور پچھڑی جماعتوں کی متحدہ ووٹنگ کاتمام سیکولر جماعتوں کے لیڈران نے اعتراف کیا ہے۔
اب ریاست مہاراشٹر میں اسمبلی کے انتخابات جلد ہی ہونے جارہے ہیں۔ ریاست میں سیکولر پارٹیوں کے اتحاد والی جماعتوں کو لوک انتخابات میں جو کامیابی ملی ہے، اس سے ان کے حوصلے بلند ہیں اور انھیں یقین ہے کہ ایسا ہی ماحول اسمبلی انتخابات کے دوران بھی ہوگا۔ ایسے ہم چونکہ ایک این جی او کے طور پر کا م کرتے ہیں، اس لئے غیر سیاسی سطح پر ووٹنگ بیداری اور ووٹنگ فیصد بڑھانے کا کام ہم بھی کریں گے۔ ایس میں کچھ باتیں ان جماعتوں کے سربراہوں سے بھی کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اس خوش فہمی میں مت رہنا کہ مسلم سماج پارلیمانی چناؤ کی طرح اسمبلی چناؤ کیلئے بھی ایسی ہی بیداری کا ثبوت دے گا۔ پارلیمانی انتخابات میں وزیر اعظم نے اہم مسند پر بیٹھ کر جو زہر افشانی کی تھی اور شریعت سے لے کر شہریت تک مسلمانوں کے خلاف جس طرح کاپرچار کیاتھا، اس کا اثر یقیناًپارلیمنٹ کے چناؤ میں نظر آیا تھا، لیکن اب اس طرح کی بات نہیں رہے گی۔ اس کے برعکس اب مسلم سماج بھی اپنی جائز حصے داری چاہتا ہے۔ اسمبلی انتخابات کے دوران اگر اس پر غور نہیں کیا گیا اور اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو بہت ممکن ہے کہ اس کے منفی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
لہٰذا ہم ریاست مہاراشٹر کے سیکولر پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس بات پر غور کریں کی ریاست کے۲۸۸؍ اسمبلی حلقوں میں کہاں کہاں مسلم سماج کو نمائندگی دی جا سکتی ہے؟ ان۲۸۸؍ اسمبلی حلقوں میں حالیہ پارلیمانی انتخابات کے حلقوں کے تحت جو اسمبلی حلقے آتے ہیں، ان میں ۳۸؍ اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد خاصی ہے۔ ان حلقوں کا ووٹنگ فیصدکچھ اس طرح ہے۔
مالیگاؤں سینٹرل میں (۴ء۷۸)، مانخورد شیواجی نگر میں (۵۳)، بھیونڈی ایسٹ میں (۵۱)، ممبا دیوی میں (۹ء۵۰)، بھیونڈی ویسٹ میں (۵ء۶۹)، ممبرا کلوا میں (۷ء۴۳)، آکولہ میں (۶ء۴۱)، بھائیکلہ میں (۵ء۴۱)، اورنگ آباد میں (۵ء۳۸)، اورنگ آباد ایسٹ میں (۵ء۳۸)، ورسوا میں (۵ء۳۳)، دھاراوی۔ ایس سی میں (۴ء۳۳)، باندرہ ایسٹ میں (۵ء۳۷)، کرلا۔ ایس سی میں (۷ء۳۰)، انوشکتی نگر میں (۸ء۲۸)، ملاڈ ویسٹ میں (۷ء۲۷)، چاندیولی میں (۶ء۲۷)، اندھیری ویسٹ میں (۱ء۲۷)، آکوٹ میں (۱ء۲۷)، باندرہ ویسٹ میں (۳ء۲۵)، پربھنی میں (۲ء۲۵)، شولا پور سینٹرل میں (۸ء۴۲)، کالینہ میں (۴ء۲۴)، بالا پور میں (۸ء۲۳)، ناندیڑ نارتھ میں (۵ء۲۳)، ناندیڑ ساؤتھ میں (۵ء۲۳)، ناگپور سینٹرمیں (۱ء۲۲)، پھولمبری، اورنگ آباد میں (۹ء۲۱)، دھولیہ شہر میں (۷ء۲۱)، سائن کولی واڑہ، ممبئی میں (۱ء۲۱)، کارنجہ میں (۸ء۲۰)، پونے کینٹ۔ ایس سی میں (۸ء۲۰)، ملکا پور میں (۴ء۲۰)، لاتور سٹی میں (۴ء۲۰)، جالنہ میں (۲۰)، بیڑ میں (۲۰)، سلوڑ میں (۲۰) اور راویر میں بھی خاصی بڑی تعداد میں مسلم رائے دہندگان ہیں۔
ان اسمبلی حلقوں میں ۳؍ حلقے ایس سی ریزرویشن کے ہیں لہٰذا بقیہ ۳۵؍ حلقوں میں مسلمانوں کی حصے داری کی بات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ بقیہ ۶۶؍ انتخابی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی ۱۰؍ فیصد سے لے کر۱۹ء۴ء فیصد تک ہیں۔ اسی طرح ۹۱؍ اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں ۶؍ فیصد سے لے کر ۹ء۹؍ فی صد تک مسلم ووٹرس ہیں۔ مسلمانوں کی جائز حصے داری اگر دی گئی تو باقی تمام حلقوں میں یقیناً مسلم سماج کے ووٹرس کا فائدہ انہی پارٹیوں کو ملے گا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو پھر اس کے منفی نتائج بھی سامنے آسکتے ہیں۔
حال ہی میں ودھان پریشد کے امیدواروں میں ایک بھی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ وجاہت مرزا جیسے فعال نوجوان کو بھی مایوس کیا گیا۔ اس پر مسلم سماج کا جو رد عمل سامنے آیا وہ بہت غور طلب ہے۔ کہیں ایسانہ ہو کہ مسلمان نا امید ی کا شکار ہوجائیں کیونکہ پارلیمانی انتخابات کے واضح نتائج میں مسلم سماج کا نمایا ں رول رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کئی مقامات پر ماب لنچنگ جیسے معاملات بھی سامنے آئے، گھروں پر بلڈوزر چلے، بے گناہ نوجوانوں پر جھوٹے مقدمے قائم کئے گئے، فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور اس میں یک طرفہ کاروائیاں ہوئیں، نندوربار اور املنیر کی طرح کئی جگہوں پر مسلمانوں کے خلاف فرقہ پرستوں نے زیادتیاں کیں لیکن افسوس کہ ان تمام معاملات پر سیکولر لیڈروں نے خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
اگر یہی صورتحال رہی اورخدا نخواستہ یہ سماج ایک بار پھر مایوس ہو گیا تو جس طرح بابری مسجد سانحہ کے بعد مسلمانوں نے کانگریس کے تئیں ناراضگی کا اظہار کیا تھا، ایک بار پھر وہی ناراضگی دکھائی دے سکتی ہے۔ ۱۹۹۲ء کے بعد مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے ووٹنگ کے عمل سے خود کو دور کرلیا تھا جس کے نتائج آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔
ایسے میں سیاسی جماعتوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ جائز اور مناسب حلقوں میں مسلم نمائندگی دی جائے۔ آج اگر ہم مہاوکاس اگھاڑی کی بات کرتے ہیں تو تینوں پارٹیاں مل کر ریاست میں وہ اضلاع جہاں ایک بھی مسلم ایم ایل اے نہیں ہے، ایسے دو یا تین ضلعوں کو ملاکر تینوں پارٹیاں ایک ایک نوجوان کو ودھان پریشد میں لیں ۔ پوری ریاست کے سواسو کروڑ مسلمانوں کیلئے ایک نوجوان نمائندہ پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہے لہٰذا یہ تینوں پارٹیاں اپنی جانب سےمہاراشٹر کے ایک نوجوان کو راجیہ سبھا میں نامزد کریں۔ اگر ایسا کچھ مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا تو ہمیں پورا یقین ہے کہ پارلیمانی انتخابات کی طرح اسمبلی الیکشن میں بھی اس کا مثبت اثر نظر آئے گا۔ وگرنہ اس کے ذمہ دار از خود سیاسی پارٹیاں ہوں گی۔ مسلمان صرف یہ چاہتےہیں کہ :
اے اہل چمن رکھ لو یہ تحفۂ گل اپنا :مجھ کو میرا حق دے دو انعام نہیں لوں گا