بلال فرقانی
سرینگر//محکمہ ٹرانسپورٹ نے سرینگر میں قریب900 سرکاری و نجی اسکولوں کا ٹرانسپورٹ آڈٹ شروع کیا ہے،جس کے دوران تعلیمی اداروں کی ٹرانسپور ٹ سروس میں طلاب کی حفاطت،گاڑیوں کی حالت و دیکھ بال،ایمرجنسی تیاریاں،ڈرائیور وں ومددگاروں کا رویہ،ڈائزئن و تحفظ،پارکنگ اور لوڈنگ کا احاطہ کیا جائے گا۔ٹینگہ پورہ سڑک حادثہ کے بعد محکمہ ٹرانسپورٹ اور ٹریفک قوانین کا نفاذ کرنے والی ایجنسیاں جہاں متحرک ہے،وہیں بڑے پیمانے پر سکولوں کی ٹرانسپورٹ سروس کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔ بمنہ علاقے میں جمعہ کو اسی طرح کی مہم کے دوران کئی سکولوں کی گاڑیوں کی جانچ ٹریفک آڈٹ کے معیار اور ضوابط کو مد نظر رکھتے ہوئی کی گئی۔یہ اپنی نوعیت کی جامع مہم ہے جس کے دوران سرینگر کے قریب900سکولوں کی ٹرانسپورٹ سروس ،جن میں500کے قریب نجی اور400کے قریب سرکاری سکول شامل ہے، کا سیفٹی آڈٹ کیا جارہا ہے۔سکول جانے والے طلاب کی حفاظت اور سڑکوں پر احتیاط کیلئے اگر چہ محکمہ ٹرانسپورٹ محکمہ نے دوسری سہ ماہی آڈٹ رپورٹ بھی پیش کی ہے،جس میں کئی نامی گرامی نجی سکولوں کی رپورٹیں بھی شامل ہیں۔علاقائی ٹرانسپورٹ افسر(آر ٹی او) کی جانب سے سکولوں کو آڈٹ کیلئے مطلع کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق محکمہ نے سکول منتظمین کے نام ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس میں انہیں طلب شدہ معلومات کو ایک ہفتہ کے اندر پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ افسر فلائنگ اسکارڈ مبشر جان نے تاہم کہا کہ اس طرح کے آڈٹ سہ ماہی بنیادوں پرہوتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ آڈٹ کے دوران سکولوں کے باہر سپیڈ بیکر،نو ہارن زون کے بورڈ اور سکولوں کے اندر روڑ سیفٹی کلبوں اور گاڑیوں کی حالت کی بھی جانچ کی جاتی ہے جبکہ آڈٹ میں بسوں کے ڈیزائن، آپریشن اور حفاظت کے حوالے سے متعدد اہم پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتاہے ‘‘۔انہوں نے کہا کہ اے آئی ایس063ضوابط کے تحت سکول بسوں کا معیار ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ سکول بسوں کی شناخت کے لیے ضروری ہے کہ یہ پیلی رنگ کی ہوں اور ان کے سامنے اور پیچھے واضح طور پر’’سکول بس‘‘ لکھا ہو۔ ان بسوں میں ایمرجنسی اخراج، فرسٹ ایڈ کٹ اور آگ بجھانے کے آلات جیسے حفاظتی سامان بھی ہونا چاہیے تاکہ کسی ہنگامی صورت حال میں طلباء کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔آڈٹ میں بسوں کے ڈرائیوروں اور مددگاروں کی اہلیت کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے اور ڈرائیوروںکے پاس کمرشل ڈرائیورنگ لائسنس ہونا ضروری ہے اور ان کے پاس کافی تجربہ ہونا چاہیے۔مددگاروں کو بھی بس میں موجود ہونا چاہیے تاکہ وہ طلباکی مدد کرسکیں اور بس میں سفر کے دوران طلباء کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ مبشر جان نے کہا کہ طلباکی حفاظت کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ بس میں سفر کے دوران بیٹھے رہیں اور بس پر سوار ہونے یا اترنے کیلئے صرف مخصوص اسٹاپ کا استعمال کریں۔ اس سے حادثات کا خطرہ کم رہتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بسوں کے راستوں اور اسٹاپوں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ اسٹاپ اچھی روشنی میں ہونے چاہئیں اور ٹریفک سے دور ہوں تاکہ طلباء کو بسوں پر سوار ہونے اور اترنے میں آسانی ہو اور وہ محفوظ رہیں۔آڈٹ کے دوران اس بات کی بھی جانچ کی جاتی ہے کہ بسوں و دیگر گاڑیوں کی باقاعدہ دیکھ بھال ہو رہی ہے تاکہ وہ اچھی حالت میں رہیں۔ آڈٹ میں یہ بھی چیک کیا جاتا ہے کہ بسیں سڑک پر چلنے کے قابل ہیں یا نہیں۔ڈرائیوروںکے رویے کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے ہے، اور یہ ضروری قرار دیا گیا کہ وہ ٹریفک کے قوانین پر عمل کریں اور ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال نہ کریں تاکہ ان کی توجہ سڑک پر مرکوز رہے۔بسوں پر سکول کی رابطہ معلومات بھی واضح طور پر درج ہونی چاہیے، اور سکول انتظامیہ کو بسوں، ڈرائیوروںاورخدمت گاروں کی معلومات کا ریکارڈ رکھنا چاہیے تاکہ ہر معاملے میں جوابدہی ہو۔