November 18, 2024
مشتاق الاسلام
پلوامہ //سٹون کرشنگ یونٹ کو متعلقہ سٹیٹ پولیوشن کنٹرول بورڈ یا پولیوشن کنٹرول کمیٹی سے قائم کرنے اور کام کرنے کی منظوری حاصل کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔سٹون کرشنگ یونٹ کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ انوائرنمنٹ (تحفظ) رولز، 1986 کے تحت اخراج کے اصولوں اور متعلقہ پولیوشن کنٹرول بورڈ /کمیٹی کے وضع کردہ شرائط کی تعمیل کرے گا۔سٹون کریشر یونٹ کیلئے متعلقہ ڈپٹی کمشنر سے اجازت لینا لازمی ہے۔پلانٹ کو صرف محفوظ جگہ پر قائم / کام کرنے کی اجازت ہے اورجموں و کشمیر آلودگی کنٹرول بورڈ کی رضامندی لازمی قرار دی گئی ہے۔ تجویز کردہ طریقہ کار/ہدایات کے معیار کے مطابق آلودگی کنٹرول بورڈ سے این سی سی حاصل کرنا لازمی ہے اور زمین اور اس کا استعمال نیزٹائٹل کی تصدیق کے حوالے سے متعلقہ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے’ کوئی اعتراض نہیں سرٹیفکیٹ‘ حاصل کرنا ضروری ہے۔متعلقہ ڈسٹرکٹ انڈسٹریز سینٹر کے ساتھ رجسٹریشن، اگر یونٹ ہولڈر کسی رعایت سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے، کرنا ضروری ہے۔محکمہ آبپاشی، اری گیشن و فلڈ کنٹرول،محکمہ زراعت و باغبانی، محکمہ ایجوکیشن،محکمہ صحت، پولیوشن کنٹرول بورڈ/کمیٹی،محکمہ کان کنی اور محکمہ آر اینڈ بی سے این اوسی کا حصول قواعد و ضوابط میں لازمی قرار دیا گیا ہے۔
انتظامیہ کی لا پروہی
یہاں قائم 14 سٹون کریشر یونٹس میں سے صرف 4 کو ہی ماحولیاتی تحفظ کیلئے ضروری “NOC” (این او سی) حاصل ہے، جبکہ باقی 10کے بارے میں کسی قسم کی معلومات دستیاب نہیں ہیں۔اس حوالے سے تحصیلدار لتر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ لاسی پورہ علاقے میں نالہ رمبی آرہ کیساتھ ساتھ 14 سٹون کریشر یونٹس کام کر رہے ہیں، لیکن یہ تجارتی یونٹس سڈکو انڈسٹریل ایریا سے باہر واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ مال کو سٹون کریشر قائم کرنے یا نہ کرنے کی اجازت دینے سے متعلق کوئی اختیار نہیں ہے اور اسکے لئے پولیوشن کنٹرول بورڈ ہی بہتر جان سکتا ہے۔پولیوشن کنٹرول کمیٹی ضلع افسر پلوامہ بلال احمد خان نے انکشاف کیا کہ لاسی پورہ میں صرف 4 سٹون کریشر یونٹس کو پولیوشن کنٹرول بورڈ سے این او سی حاصل ہے، جبکہ باقی 10 یونٹس این او سی کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ وہ اس سلسلے میں سخت کارروائی کرنے جارہے ہیں۔تاہم انہوں نے ابتک کارروائی نہ کرنے کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔محکمہ کے ذرائع کے مطابق سال 2011 تک اس علاقے میں صرف 4 سٹون کریشر کام کررہے تھے۔لیکن پچھلے 13 سالوں میں ان کی تعداد 14 تک پہنچ گئی ہے۔
آلودگی پر اثرات
لاسی پورہ میں سٹون کریشروں کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔مقامی لوگوں کی جانب سے انتظامیہ سے تحقیقات اور فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ سٹون کریشروں کی کارروائیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آلودگی نہ صرف فضائی معیار کو متاثر کر رہی ہے بلکہ یہاں کے قدرتی منظر کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔ “لاسی پورہ” کے علاقے میں پھیلتی دھند اورگردو غبارسے علاقے کی تاریخی اہمیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مقامی لوگوں کے مطابق، سٹون کریشرز کے نتیجے میں فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے سانس لینے کی بیماریوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ صحت کے مسائل میں اضافے اور ماحول کے خراب ہونے کے باعث زرعی اراضی پر بھی اثرات پڑرہے ہیں۔یہاں کثرت سے میوہ باغات ہیں اور گردوغبار میوہ پر جمع ہورہا ہے جس سے میوہ کی قیمت کم ہورہی ہے کیونکہ گردوغبار کی تہہ جمع ہونے سے میوہ اپنا قدرتی رنگ حاصل نہیں کر پارہا ہے۔
تحقیقات کا مطالبہ
مقامی لوگ یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ نالہ رمبی آرہ سے کان کنی کرنے کی کس نے اجازت دے رکھی ہے،سٹون کریشروں کو نالے میں بنانے کی اجازت کس اتھارٹی نے دی، NOCکس محکمہ نے دی اور اجازت نامہ کس آفس سے حاصل کیا گیا۔ لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان سٹون کریشروں کو کام کرنے کی اجازت دینا مقامی انتظامیہ کی غفلت اور نااہلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی، جس کی وجہ سے یہ انڈسٹری بے قابو ہوتی جارہی ہے اور ماحول پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔”ہمیں بس ایک چیز کی ضرورت ہے—تحقیقات۔۔مقامی رہائشیوں نے کشمیر عظمیٰ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا’’ یہ جو بھی ہو رہا ہے، ہم نہیں جانتے ،لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے؟” ، انتظامیہ اس معاملے کی مکمل تحقیقات کرے اور سٹون کریشروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ آلودگی کا خاتمہ ممکن ہو سکے اور عوامی صحت کے علاوہ زرعی اراضی کو محفوظ بنایا جا سکے۔