ڈاکٹر شپرا ماتھر

پیدا ہونے والے بچے، ان کی صحت، ان کی متوقع عمر، کسی بھی ملک کی ترقی کے بڑے پیرامیٹرز ہیں۔ اسی لیے بار بار صحت میں سرمایہ کاری میں اضافہ کی بات ہوتی ہے۔جہاں ہندوستان کی جی ڈی پی کا صرف دو فیصد ہی اس وقت صحت پر خرچ ہوپارہا ہے، وہیں گزشتہ برسوں میں پرائمری ہیلتھ پر کل سرکاری اخراجات بڑھ کر55فیصد ہو گئے ہیں۔ نیشنل ہیلتھ مشن کے بجٹ کا 15-20 فیصد نوزائیدہ کی صحت اور اس میں بھی نوزائیدہ کی خصوصی دیکھ بھال کی یونٹوں کا بجٹ تقریباً1200-1500کروڑ روپے ہے۔ یعنی حکومت کی ترجیح میں تو صحت ہے لیکن صحت خدمات کا ڈھانچہ اتنا ناقص ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں وہی لوگ جاتے ہیں جو پرائیویٹ اسپتالوں کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

اس طرح ہندوستان جیسی مضبوط جمہوریت میں تعلیم، صحت، روزگار اور وسائل کی ترقی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس کے باوجود صحت اور علاج کے حوالے سے حکومتی نظام کمزور رہا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں پرائمری سے لے کر کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز کے مکمل نیٹ ورک کے باوجود دیہی اور قصبائی آبادی کی علاج معالجے کی فکر کم نہیں ہوئی ہے اور کسی بھی فیملی کی سب سے بڑی فکر توحاملہ خواتین اور پیدا ہونے والے بچے کی صحت کی ہوتی ہے۔ نومولود کی اسپتال میں مناسب دیکھ بھال ہو، اس کے لیے فیملی کچھ بھی کرنے کے لیے راضی ہوتی ہے۔ اس کی صحت کا بحران پورے خاندان کو تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔ اسی لیے نوزائیدہ انتہائی نگہداشت(neonatal captious care) مہارت کا ایک شعبہ ہے جس میں اپنے کام میں مہارت اور حساسیت دونوں کے امتزاج کی ضرورت ہوتی ہے۔ کریٹیکل کیئر کے معنی ہی انتہائی سخت نگرانی، مہارت اور تیاری ہے۔ نوزائیدہ انتہائی نگہداشت کے یونٹس یعنی ’این آئی سی یو‘ میں حفاظتی پروٹوکول انتہائی سخت ہیں، لیکن چھوٹی سی بھی کوتاہی بڑے حادثہ کا باعث بنتی ہے۔

خطرہ کہاں ہے؟نوزائیدہ بچوں کی نازک حالت کو سنبھالنے کے لیے ایک پیچیدہ نظام(Complex mechanism) شامل ہوتا ہے۔ جس میں آکسیجن اور برقی آلات کا اہم رول ہوتا ہیں۔ وسیع اندازے کے مطابق سالانہ تقریباً ایک صحت کی سہولت (health facility) میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آرہا ہے۔ اس معاملے کی حساسیت کے پیش نظر، نیشنل نوبورن ڈیزیز فورم(این این ایف) اور یونیسیف نے سال 2010 میں گائیڈ لائنز تیار کیں۔ جس پر تمام نوزائیدہ کیئر یونٹس کے لیے عمل آوری ضروری ہے۔ ان ہدایات میں صحت کی تمام سہولیات کے لیے لازمی فائر سیفٹی سرٹیفکیٹ، ہر دو سال بعد مکمل حفاظتی معائنہ، بجلی کے نظام کے باقاعدہ آڈٹ کے ساتھ فائر الارم اور ہنگامی حالات کو کنٹرول کرنے کا فوری ردعمل سب شامل ہیں۔ اس نظام کے چار مراحل ہیں، جنہیں کیئر پروٹوکول کہتے ہیں۔ کنفائن یعنی آگ پر قابو پانا، ایکٹیویٹ یعنی الارم بجانا، رپورٹ یعنی واقعہ کے بارے میں فوری معلومات اور Evacuate یعنی وارڈ میں داخل بچوں کو فوراً باہر نکالنا اور بچانا۔ ان سب کے لیے تربیت اور باقاعدہ نگرانی کا مکمل خاکہ بنا ہوا ہے۔ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ’’مسکان‘‘ نامی رہنما خطوط بھی ہیں، جن میں آگ سے حفاظت کے سخت اصول بھی ہیں۔ پھر بھی خطرہ اس لیے برقرار رہتا ہے کہ اسپتال انتظامیہ اس خاکہ(بلیو پرنٹ) پر عمل کرنے میں کمی، یا آلات کو بہتر بنانے اور اپ گریڈ کرنے کے لیے سرمایہ کاری میں کمی کردیتی ہے۔ تربیت یافتہ، مخلص اور سنجیدہ عملے کی کمی بھی ایک بڑی وجہ ہے، جنہیں اتنے حساس کام میں معمولی سی بھی غلطی کی وجہ سے کسی فیملی کو تاحیات ملے غم کا اندازہ نہیں ہے۔

کوئی اسپتال یا انتظامیہ نہیں چاہتا کہ ایسے حادثات رونما ہوں۔ کچھ عرصہ قبل دہلی کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہوئے ایک حادثے میں کئی نومولود کی آگ میں جھلسنے کی وجہ سے المناک موت ہوگئی تھی۔ اسپتال کے خلاف کارروائی ہوئی اور پھر سے شارٹ سرکٹ کے خطرے کے لیے سب آگاہ ہوئے۔ اب ایک بار پھر اترپردیش کے جھانسی میں پیش آنے والا یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ تمام ہدایات اور طے شدہ نظام پر عمل کرنے میں کتنی لاپروائی برتی جاتی ہے۔ ملک بھر میں نوزائیدہ ایمرجنسی وارڈز میں آگ لگنے اور نومولود بچوں کی اموات کے واقعات بھلے ہی ایک-دو ہوں، لیکن یہ اسپتال انتظامیہ کی غفلت کی بڑی گواہی دیتے ہیں۔ اس میں پرائیویٹ اور سرکاری دونوں اسپتال شامل ہیں۔ ان حادثات کو اس زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ جو ریاستیں ان حادثات سے بچی ہوئی ہیں، وہ انہیں بچوں اور زچہ کی صحت کے لیے دیے گئے بجٹ کا80سے90فیصد خرچ کر پارہے ہیں، جب کہ جہاں نظام ناقص ہے وہ ریاستیں کل ملی رقم کا40-60فیصد ہی خرچ کرتی ہیں۔ ان ریاستوں میں اترپردیش، جھارکھنڈ، بہار اور آسام جیسی ریاستیں شامل ہیں جو برسوں سے اس شیطانی چکر میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اس پر سختی کرنا اب ٹیکنالوجی کی مدد سے آسان بھی ہے اور ضروری بھی۔ اگر سرکاری افسران میں خوداعتمادی ہو تو اس ملک میں سب کچھ ممکن ہے۔ اسی لیے کئی بار ایسا لگتا ہے کہ اس بابو نظام کو مکمل طور پر ختم کرکے ایک بہتر متبادل نظام تیار کرنا بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ نے بھی ملک میں حکومتی نظام کو موثر بنانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ہندوستان کے اپنے ماڈل پہلے تیار ہوں تو جمہوریت کو مضبوط کرنے اور حکومت کی کامیابی کی طرف یہ ایک بڑا قدم ہو سکتا ہے۔

ان معاملات کے بہانے ملک میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی کے خطرے بھی پھر سامنے آتے ہیں۔ جتنی ضرورت ہے اس کے مقابلہ ملک میں نوزائیدہ بچوں کے لیے ڈاکٹروں یعنی نیٹولوجسٹ کی کمی تقریباً 70 فیصد ہے۔ ملک میں جو سب سے بڑا مسئلہ پیدا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کا اسپتالوں اور ڈاکٹروں پر اعتماد کم ہوا ہے۔ اس میں پرائیویٹ اور سرکاری دونوں ہیں۔ سب کاروباری ہوگئے ہیں، اپنی پڑھائی اور پرائیویٹ اسپتالوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے سرمایہ کے منافع کے بارے میں زیادہ سوچنے لگے ہیں۔ آتشزدگی جیسے حادثات کی تو تحقیقات ہوجائے گی، سزا بھی ملے گی اور معاوضہ بھی مل جائے گا، لیکن والدین اپنے دودھ پیتے بچوں کے جھلس جانے کے درد سے کبھی نہیں ابھر پائیں گے۔

حکومتی ایجنسیاں اس بنیادی ڈھانچہ میں تربیت، وسائل اور نئی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ مخلص ماہرین کی بھرتی اور انہیں کام کرنے کا اچھا ماحول فراہم کرنے میں توجہ دے پائیں تو اچھا ہو۔ بین الاقوامی ایجنسیوں سے صرف کاغذی کام، چمکدار رپورٹس اور دستورالعمل تیار کرانے والے انتظامی ڈھانچے پر لگام لگانا انتہائی ضروری ہے، فی الحال ان ایجنسیوں اور غیر ملکی کمپنیوں کی کنسلٹینسی سروسز کا استعمال پالیسیوں کو بہتر بنانے کے لیے ہورہا ہے۔ یہ بھی ہماری موجودہ ہنر اور صلاحیتوں کا غلط استعمال ہی ہے۔ اتنے بڑے مقابلے کے کئی درجے پاس کر کے انتظامی افسر بننے والے افسران 100-200صفحات پر مشتمل دستاویزات تیار کرنے کے لیے کرایہ کی ایجنسیوں پر انحصار کر رہے ہیں اور کوئی سوال کرنے والا نہیں؟ پرانی دستاویزات اور تمام تجربات کو شامل کرکے اس کاغذی دستاویز کو بنانا بہت آسان کام ہے۔ زمینی سطح پر مؤثر کام کرنے اور صحت کی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اچھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھے کہ سرمائے کا سائیکل برقرار رہے لیکن عام لوگوں کی جیبوں پر بوجھ نہ پڑے۔ تحریکی باتوں اور لیکچروں سے زیادہ متاثر کن کام کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں تو اپنے بچوں اور نوجوانوں پر کھلے دل سے سرمایہ کاری کرنے والا اور بنیادی ضرورتوں کے لیے بیدار ملک، درحقیقت صحت مند اور مضبوط کہلائے گا۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS