عبیداللہ ناصر

جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی دے جائے جیسے سوکھے کھیتوں پر پانی کی پھوار برس جائے جیسے ریگستان میں نخلستان دکھائی دے جائے ٹھیک اسی طرح اس ملک میں چاروں طرف سے گھری امت مسلمہ کے لئے سپریم کورٹ کے تین فیصلے ہیں جنہوں نے قوم کے متزلزل اعتماد کو بحال کر دیا ہے۔بی جے پی کی حکومتوں کو ملک کی ترقی خوشحالی اور ملک کو مضبوط کرنے کے لئے سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے بجائے اپنے نظریہ کے مطابق ملک کو ہندو راشٹر بنانے اور مسلمانوں کونہ صرف دوسرے درجہ کا شہری بنانے ان میں احساس بیگانگی پیدا کرنے، ان کی عزت نفس کو پامال کرنے میں اپنی پوری طاقت لگا رکھی ہے آئینی اداروں میں اپنے آدمی بٹھا کر آئین ہند کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، آئین کی روح ہی نہیں ان کے الفاظ تک کی ناقدری کی جا رہی ہے،جس آئین کا حلف لے کر ملک کے سبھی شہریوں کے ساتھ انصاف اور مساوی سلوک کرنے کا عہد کرنے والے سیاسی عہدہ دار ہی نہیں انتظامیہ یہاں تک کی عدلیہ میں بھی اس عہد کی پاسداری نہیں کی جا رہی ہے۔ گزشتہ 10برسوں میں ایسے درجنوں مقدموں کے فیصلوں میں انصاف کا خون کر کے حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے گئے ہیں اسے سیاسی فائدہ پہنچایا گیا ہے۔دیگر آئینی اداروں کی تو بات ہی کرنا فضول ہے، ایسے میں سپریم کورٹ نے مدرسوں، بلڈوزر ظلم اور آخر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سلسلہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کر کے صرف مسلمانوں ہی نہیں سماج کے دیگر انصاف پسندوں کے مرجھائے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی ہے کیونکہ ملک کا ایک بڑا سیکولر انصاف پسند طبقہ جس سمت ملک جا رہا ہے اس سے نہ صرف پریشان بلکہ نا امید بھی ہو رہا تھا اور سب کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف ہی لگی ہوئی تھیں، کیونکہ ملک کی آئینی جمہوریت اب یہی ایک ادارہ بچا سکتا ہے۔مدرسوں سے سنگھیوں کی دشمنی کوئی نئی نہیں ہے۔ جنگ آزادی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے مدرسوں، اس کے علما اور طلبا سے انگریز سخت نفرت کرتے تھے تو جس کو ان کے آقا نا پسند کرتے تھے اس کو یہ لوگ کیسے پسند کر سکتے ہیں۔ مدرسوں کے خلاف سنگھ پریوار کی مہم برسوں پرانی ہے اور ان پر دہشت گردی پاکستان پرست، تبدیلی مذہب کے مرکز اور نہ جانے کیسے کیسے الزام لگا کر انھیں بدنام کرنے کی مہم بابری مسجد مہم کے ساتھ ہی شروع کی گئی تھی۔ ظاہر ہے انہیں نہ مدرسوں کی تاریخ کا پتہ ہے، نہ اہل مدرسہ کی آزادی کے لئے قربانیوں اور نہ تقسیم وطن کو روکنے کی ان کی کوششوں کا کوئی علم ہے۔ انہیں تو بس ہر مسلم ادارہ وطن دشمن ہی دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ ملک کی آزادی کی جنگ میں ان کا منفی کردار، ان کا شرمناک اور داغدار ماضی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔یہ انگریزوں کی حکومت مستحکم کرنے کے لئے ان کے ساتھ کھڑے تھے اور بدلے میں پنشن پرانے لیڈران پاتے تھے اوراب یہ سوال اٹھاتے ہیں مسلمانوں اور ان کے اداروں کی حب الوطنی پر۔مدرسوں کے خلاف ان کی مہم کا نقطہ عروج ہی یہ تھا، کہ اس کی وجہ سے مدرسوںکے خلاف الہ ا ?باد ہائی کورٹ کا فیصلہ جس نے یو پی مدرسہ بورڈ کو غیر آئینی قرار دے کر اسے کالعدم قرار دے دیا اورسب مدرسوں کو بند کر کے پرانے طلبا کوسرکاری اسکولوں میں بھرتی کرانے کا حکومت کو حکم دیا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ سے ریاست کے ہزاروں مدرسوں اور لاکھوں طلبا کی تعلیم کو لے کر سنگین مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا جس نے پہلے تو ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے آرڈر جاری کر دیا اور اس کے بعد اس کے فیصلہ کو پلٹ کر ہزاروں مدرسوں کو بند ہونے اور لاکھوں طلبا کو تعلیم سے محروم ہونے سے بچا لیا۔ حالانکہ مدرسہ بورڈ کو بی اے اور ایم اے کے مساوی ڈگریاں دینے کا اختیار چھین لیا گیا ہے کیونکہ یہ اختیار صرف یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے منظور شدہ یونیورسٹیوں کو ہی ہے۔ باقی مدرسہ بورڈ کے تحت حسب سابق ہی چلتے رہیںگے۔اس تلخ اور شرمناک حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرکار سے ملنے والی گرانٹ کو ہضم کرنے کے لئے بہت سے مدرسوں کو بدعنوانی کا اڈہ بنا دیا گیا تھا۔ فرضی مدرسہ فرضی اساتذہ، فرضی طلبا اور لاکھوں کی گرانٹ کی لوٹ ایسے مدرسوں کی جانچ کر کے ان میں تالا لگوا دینا اور دی گئی رقم معہ سود واپس لینے کا حکومت کو حق اور اختیار ہے۔ ایسے بد عنوان مدرسوں کے مالکوں سے کوئی ہمدردی نہیں کی جا سکتی ان کی جگہ جیل ہی ہونی چاہئے۔

جہاں تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بات ہے تو سنگھ پریوار ہی نہیں خود کانگریس بھی اس کے اقلیتی کردار کی دشمن رہی ہے۔ 1967میں دائر ہوے عزیز پا شا کیس میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اسے مسلمانوں کے ذریعہ قائم کی گئی یونیورسٹی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے قانون سے قائم کی گئی سرکاری یونیورسٹی قرار دیا تھا، اس فیصلہ کی بنیاد پر اندرا گاندھی نے اس کا اقلیتی کردار ختم کر دیا اور اب وہ صرف علی گڑھ یونیورسٹی رہ گئی تھی اس کے خلاف نہ یونیورسٹی کے طلبا اور اساتذہ میدان میں کود پڑے بلکہ پوری مسلم قوم برہم ہو گئی اور دیگر باتوں کے علاوہ 1977 میں اندرا گاندھی کی شکست میں ان کے اس فیصلہ نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا، مگرشکست کے بعد اندرا گاندھی کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور 1980 میں جب وہ دوبارہ برسر اقتدار آئین تو پارلیمنٹ سے باقاعدہ قانون منظور کرا کے اس کا اقلیتی کردار بحال کیا، اس بل پر بحث کے دوران بی جے پی کے لیڈران اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن اڈوانی نے بھی اس بل کی حمایت میں تقریر کی تھی اورووٹ دیا تھا پھر منموہن سنگھ کی سرکار نے بھی سپریم کورٹ میں حلف نامہ دے کر اسے اقلیتی یونیورسٹی تسلیم کیا تھا، مگر مودی سرکار اس سے پلٹ گئی اور الہ آباد ہائی کورٹ نے جب اس کو پھر اقلیتی یونیورسٹی نہیں مانا تو سپریم کورٹ میں مودی سرکار نے بھی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی حمایت کی مگر سبکدوش ہو رہے چیف جسٹس چندر چوڑ کی قیادت والی آئینی بنچ نے فساد کی جڑ ہی ختم کر دی یعنی عزیز پا شا والے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو خارج کر دیا اب پھر معاملہ ایک تین رکنی بنچ کے پاس جائے گا اور قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کی یہ مجوزہ بنچ اس کے اقلیتی کردار پر حتمی مہر لگا دے گی۔لیکن سب سے اہم فیصلہ جس سے عام آدمی سب سے زیادہ خوفزدہ تھا وہ ہے بلڈوزر کی کارروائی پر قدغن -بلڈوزر کے ذریعہ بغیر قانونی تقاضوں کو پورا کئے کسی کا مکان گرا دینا نہ صرف ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ا نسانیت کے خلاف جرم بھی ہے یہ جاگیردارانہ دور کی سزا ہے جس میں زمیندار، تعلقدار راجہ، مہاراجہ رعایا کے مکان معمولی سی غلطی یا حکم عدولی پر نذر آتش کرا دیا کرتے تھے، جمہوری آئینی اور مہذب سماج میں ایسی کسی سزا کا جواز نہیں ہو سکتا جو عدالت نے نہ دی ہو۔ دوسرے خاندان کے کسی ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کونہیں دی جا سکتی، لیکن اتر پردیش کے وزیر ا علی یوگی آدتیہ ناتھ نے اسی جاگیردارانہ نظام کی سزا کو اپنی سیاسی شناخت بنا لی اور بلڈوزر بابا کے نام سے مشہور ہو گئے، اس کا جب انہیں سیاسی فائدہ ملا تو بی جے پی کے دوسرے وزرائے اعلیٰ نے بھی یہ طریقہ اختیار کر لیا یہاں تک کہ اپنی اعتدال پسندی اور اٹل جی کے نقش قدم پر چلنے والے بی جے پی کے مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج چوہان جوپیار سے ما ما کہے جاتے تھے وہ بلڈوزر ما ما بن گے، بی جے پی حکومتوں کے اس غیر آئینی غیر قانونی اور غیر انسانی اقدام کے خلاف جس کا 95 فیصدی شکار مسلمان ہی ہو رہے تھے مولانا ارشد مدنی اور ایسو سی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر ) نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور وہاں سے اس پر نہ صرف سخت قدغن لگا بلکہ چند معاملوں میں تاوان بھی ادا کرنے کا حکم ہوا ہے، جس سے پورے ملک خاص کر مسلمانوں نے راحت کی سانس لی ہے، لیکن انصاف کا تقاضہ ہے کہ جن لوگوں کے مکان غیر قانونی طریقہ سے منہدم کئے گیے ہیں ان کو پورا معاوضہ دیا جائے اور یہ رقم متعلقہ افسران سے ہی نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ سے بھی وصولی جائے کیونکہ افسران تو انھیں کے حکم اور خوشنودی کیلئے ایسی انسانیت سوز غیر قانونی اور غیر آئینی کارروائی کرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے مذکورہ تینوں فیصلوں سے ان سفید پسند عناصر خاص کر مسلمانوں نے نہ صرف راحت کی سانس لی ہے بلکہ عدلیہ پر ان کا اعتماد بھی بحال ہوا ہے۔

خنجر بدست شہر میں چارہ گری کی بو
اے زخم بیکسی تجھے بھر جانا چاہئے
(پروین شاکر )

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS