خواجہ عبد المنتقم

عدلیہ قانون سازیہ اور عاملہ کی طرح جمہوریت کا ایک انتہائی مضبوط ستون ہے۔ کوئی بھی جمہوریت تب تک کارگر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک کہ جمہوری نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لیے مضبوط عدلیہ موجود نہ ہو۔ ہمارے آ ئین میںاس بات کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے کہ عدلیہ مضبوط ہواور اس کی آزادی پر بھی کوئی آنچ نہ آئے مگر جب ملک کی عدلیہ کے اعلی ترین عہدیداران پر ہی انگلیاں اٹھنے لگیں تو دانتوں تلے انگلی دبانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔قانونی اعتبار سے کسی فیصلے کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے لیکن کسی جج ،خواہ وہ رکن اجلاس ہو یا سبکدوش ،کی کارکردگی کے بارے میں اس کی ذات کے حوالے سے تنقید اور یہ کہنا ،اور وہ بھی اپنے ذاتی مفاد یا کسی سیاسی غرض سے کہ وہ اس عہدے کا اہل نہیں ہے ،جس پر وہ فائز ہے یا فائز تھا پیشہ ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے متعلقہ عہدیدار اور متعلقہ ادارے کا وقار ضرور مجروح ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں اس طرح کی باتیں کرنا یا شکایات کا درج کرایا جانا اور ان کا nationalist domain میں آنا عدلیہ کے وقار کو یقینی طور پر بادی النظر میں مجروح کرتا ہے۔
اگر کسی ِشخص کو حسب دلخواہ انصاف نہیں ملتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ جج کی نا اہلیت پر سوال اٹھایا جائے یا کسی جج کو یہ مشورہ دیا جائے کہ اس کے لیے یہ بہتر ہے یا بہتر تھا کہ وہ کوئی اور پیشہ اختیار کر لیتا۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ عدالت دونوں فریق کو مطمئن کر سکے۔ ویسے بھی شکست کسے اچھی لگتی ہے البتہ برطانوی عدلیاتی نظام ،جو ہمیں وراثت میں ملا ہے، ججز سے یہ توقع ضرور کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے یا ذاتی رجحانات کو کم سے کم اہمیت دیں۔ تعبیر کے مختلف اصولوں کا مقصد جج کی اس بات میں مدد کرنا ہے کہ وہ اس بات کا قطعی فیصلہ کرسکے کہ قانون ساز اداروں نے کوئی مخصوص قانون کس لیے بنایا ہے اور ان کا ارادہ کیا تھا۔ ایک اچھے جج کو اس بات پر بھی دھیان دینا چاہیے کہ وہ یہ سمجھے کہ وہ معاشرہ جس کا وہ خود حصہ ہے، اس کی ضروریات کیا ہیں۔ اگر کوئی جج معاشرے یا عوام کے مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کوئی فیصلہ دیتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کے ذاتی رجحانات اس پر غالب آگئے ہیں۔ آخر جج بھی ایک انسان ہے اسی معاشرے میں رہتا ہے جو بھی واقعات اس کے چاروں طرف پیش آتے ہیں، ان پر نظر ڈالتا ہے، انھیں محسوس کرتا ہے۔اگر مظلوم کے دل میں کوئی کسک ہوتی ہے تو وہ بھی اسے محسوس کرتا ہے۔کیا سپریم کورٹ نے نام نہادبلڈوزر جسٹس کیخلاف فیصلہ نہیں دیا؟کیا سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے بارے میں اپنی مثبت رائے کا اظہار نہیں کیا؟کیا سپریم کے ججز نے یہ بات نہیں کہی کہ ان کے لیے بھارت کا آئین ہی گیتا، قرآن، گروگرنتھ و بائبل ہے۔ ان کے اس قول سے یہ منطقی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انھیں ان چاروں مقدس کتابوں کے تقدس کا پورا پورا خیال تھا۔ مگر افسوس کچھ جج صاحبان نے خواہ وہ جسٹس سمتراسین ہوں یا پراوڈنٹ فنڈمعاملے میں ملوث دیگر جج، ان تمام صفات اور صلاحیتوں کو نہ صرف نظر انداز کرتے ہوئے بلکہ بالائے طاق رکھتے ہوئے ، مبینہ طور پر ایسی غلط رویے، بد اعمالی اور بد اطواری کا ثبوت دیا جس سے عدلیہ سے متعلق ہرشخص شرمسار ہو گیا تھا اور چیف جسٹس آف انڈیا کو کلکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس سمتراسین کو ان کی بد اطواری کی پاداش میں عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرنی پڑی۔
اگر کسی جج سے ذاتی ارادہ کی وجہ سے قانونی لغزش ہوئی ہو تو اسے اس بداطواری کے نتائج بھی بھگتنے پڑے ہیں۔

کبھی کبھی قانون سے نابلد لوگ بھی جنھیں یہ غلط فہمی ہے کہ وہ قانونی نکات سے بخوبی واقف ہیں، یہ کہنے سے باز نہیں آتے کہ ججز کاہل ہیں، جانبداری سے کام لے رہے ہیں اور دیدہ دانستہ کچھ معاملات کا فیصلہ دینے میں تاخیر کرتے ہیں اور کچھ تو سپریم کورٹ کے فیصلوں تک کو نہ ماننے کی بات کرکے عدلیہ کی آئینی حیثیت پر کاری ضرب لگاتے ہیں ۔

(بابا اے خان بنام اے ڈی ساونت، جے ایم ایف سی ناگپور۔1994کریمنل لاء جرنل2836ممبئی) معاملے میں عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ عدالت کو انصاف کا مندر کہاجاتا ہے۔ مندر کو ایک مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہے اور عدالت کو بھی یہی درجہ حاصل ہے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ غیر جانبدار رہے اور متضرر افراد کے وقار اور حرمت کا پورا پورا خیال رکھے۔ ان کی خوشی اس کے لیے ہمیشہ مقدم ہونی چاہیے۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات کو اپنے فرائض منصبی پر کبھی نہ غالب آنے دے۔‘‘مختصر یہ کہ عدالت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی نہایت ایمانداری کے ساتھ انجام دے۔ قوانین کی غیر جانبدارانہ تعبیر کرے اور اس کے فیصلے میں اس کے ذاتی رجحانات کی کوئی جھلک نظر نہ آئے، چونکہ ذاتی رجحانات فیصلوں کی بنیاد بننے لگے تو انصاف، انصاف نہیں رہے گا اور عدلیہ و عدلیہ کی آزادی کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ بغیر کسی دبائو یاد خل اندازی کے قانون کی صحیح تعبیر کرے اور غیر جانبدارانہ فیصلہ دے، نہ کہ بے لگام آزادی۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی جج پر بد اطواری کا الزام لگانے سے پہلے اس بات کو بھی یقینی بنانا ضروری ہے کہ آیا قصور وار جج نے مقررہ طریق عمل سے روگردانی دیدہ و دانستہ اور جان بوجھ کر کی ہے اور اس کی اس غلطی اور کوتاہی سے انصاف کا خون ہوا ہے۔ عدالت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کا پورا پورا لحاظ رکھے۔ 1961 میں ہمارے لاء کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ کوئی قوم جمہوری ڈھنگ سے تب تک آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک کہ اسے قانون کی بالادستی اور اس کی اہمیت کا احساس نہ ہو۔قانون کی بالادستی کی جھلک ہمارے آئین کی تمہید، بنیادی حقوق، ہدایتی اصولوں اور دیگر توضیعات میں بالکل صاف نظر آتی ہے۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم ایک ایسے ملک کے شہری ہیں جہاںعدلیہ کو قانون کی بالادستی کو برقرار رکھنے اور عدالتی نظر ثانی کا حق حاصل ہے۔ آج بھی بہت سے ممالک میں جیسے روس وانگلینڈ میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔ ان دونوں ممالک میں آج بھی عدلیہ کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی قانون کو غیر آئینی قرار دے ۔ ہمیں اپنی عدلیہ پر پورا پورا بھروسہ ہے اور ہم سب اس کی آزادی کے حامی ہیں اور کسی بھی بے جا مداخلت کے مخالف ہیں۔ عدلیہ اور عوام دونوں ہی کے لئے ہر دن اہم ہے مگرآج کے حساس ماحول میں کب کون سا نیا شگوفہ چھوڑ دیا جائے یا چھڑ وا دیاجائے کوئی حیرت کی بات نہیں۔ان سب کے باوجود یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آج بھی انصاف رسائی کا کلیدی ذریعہ سپریم کورٹ ہی ہے اور سپریم کورٹ وہ واحد حتمی اتھارٹی ہے جسے آئین اور دیگر قوانین کی تعبیر کرنے اوران پر عمل درآمد کرانے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پر انتظامیہ ناکام ہوجاتی ہے وہاں پر سپریم کورٹ نے بہت سے ایسے فیصلے دیے ہیں جن سے بگڑتے ہوئے حالات کو سدھارنے میں کافی مدد ملی ہے ۔

(مضمون نگار ماہر قانون، آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورو کریٹ وبین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS