قرآن مجید میں مشک کا جنت کے ذمن میں ایک اہم حوالہ موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے بہترین خوشبو قرار دیا۔چنانچہ اسلامی ثقافت میں اسے سب سے اعلیٰ، خوشبو سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس موضوع پر قرآنی حوالہ کے علاوہ صحیحین میں احادیث نبوی کی بڑی تعداد موجود ہے۔ ایسے ہی کچھ حوالہ جات اور روایات درج ذیل ہیں:۔
قرآنی آیت بسلسلہ مشک
سورہ المطففینَ، آیت ۲۵۔۲۶
انھیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہو گی۔ [25] اس کی مہرمشک ہو گی اور اسی (کو حاصل کرنے) میں ان لوگوں کو مقابلہ کرنا لازم ہے جو (کسی چیز کے حاصل کرنے میں) مقابلہ کرنے والے ہیں۔ [26](تفسیر ابن کثیر)
انہیں سر بہ مہر بڑی لذیذ شرابِ طہور پلائی جائے گی،اس کی مُہرمشک کی ہوگی، اور (یہی وہ شراب ہے) جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے(آزاد دائرۃ المعارف)
احادیث بسلسلہ مشک
۱۔۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’مشک اعلیٰ ترین خوشبو ہے‘‘۔ (راوی،حضرت ابو سعید خدریؓ، مسلم،ترمذی)
۲۔۔حضرت محمد بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے دریافت کیا : کیا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشبو استعمال فرماتے تھے؟ اُنہوں نے جواب دیا : ہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مردانہ خوشبو مشک و عنبر استعمال فرماتے تھے۔(بخاری)
۳۔۔صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی مٹی کے متعلق فرمایا:”وہ مشک جیسی خوشبودار ہے۔(بخاری)
۴۔۔ رسول پاکؐ نے فرمایا : ’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک (حدیث، المسک) کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے‘‘۔ (راوی حضرت ابوہریرہؓ، بخاری)
۵۔۔رسولؐ اللہ نے فرمایا : ’’جو گروہ جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگا ان کے چہرے چودھویں رات کی طرح تاباں ودرخشاں ہوں گے۔ ان کی انگیٹھیوں میں عود(حدیث۔ الالوہ) سلگے گا اور ان کا پسینہ مشک (حدیث، مِسک) کی طرح خوشبودار ہوگا‘‘۔(راوی، حضرت ابوہریرہؓ، بخاری)
۶۔۔ نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’اس کا (حوض کوثر) پانی دودھ سے زیادہ سفید اوراس کی خوشبو مشک (حدیث۔مِسک) سے زیادہ خوشبودار ہوگی‘‘۔(راوی حضرت عبداللہ بن عمرؓ، بخاری)
۷۔۔ میں نے حضور پاکؐ کی خوشبو سے عمدہ کوئی عنبرومشک نہیں سونگھا۔ (راوی حضرت انس بن مالکؓ، بخاری)
۸۔۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال مشک والےاورلوہار کی بھٹی کی سی ہےگا۔ ” ( بخاري)
۹۔۔رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو زخمی بھی اللہ کے راستے میں زخمی ہو گیا ہو اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے زخم سے جو خون جاری ہو گا اس کا رنگ تو خون ہی جیسا ہو گا مگر اس میں مشک جیسی خوشبو ہو گی۔(راوی حضرت ابوہریرہؓ، مسلم، بخاری)
شہداء کےزخموں سے خون صاف کرنے کی ممانعت کردی گئی ہے، بلکہ انھیں اسی حالت میں دفن کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔(فتح الباري)
۱۱۔۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کا ذکر کیا جس نے اپنی انگوٹھی میں مشک بھری تھی تو فرمایا کہ یہ سب سے عمدہ خوشبو ہے۔ (راوی، حضرت ابوسعیدؓ، نسائی، مسلم)
مشک ایک ایسی تجارتی خوشبو ہے جو خاص قسم کے پہاڑی ہرن کے پیٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس ہرن کو ہندوستان کی بیشتر زبانوں میں کستوری کہتے ہیں گوکہ بعض ہمایائی علاقوں میں اس کا نام اوس بھی ہے۔ یہ ایک نسبتاً چھوٹےقد اور ہلکے وزن کا جانور جس کے کاندھے کی اُونچائی 50 سینٹی میٹر ہوتی ہے، لمبائی 90 سینٹی میٹر وزن صرف 10 کلو ہوتا ہے۔ یہ انتہائی شر میلا جانور ہے جو سارا دن سوتا ہے اور شام کو اندھیرا ہونے کے بعد ہی اپنی غذا حاصل کرنے کے لے باہر نکلتا ہے۔
مادہ ہرنیاں مشک پیدا نہیں کرتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ مادہ ہرنیاں، اسی خوشبو کی بنا پر نر کستوری ہرن پر فریفتہ ہوجاتی ہیں اور اکثر نر اپنی اسی کشش سے پریشان ہوکر اپنی ناف کو رگڑکر زخمی کردلیتے ہیں۔
مشک ایک رطوبت ہے جو کستوری ہرن کے پیٹ میںموجود ایک غدود سے حاصل ہوتی ہے ۔ تازہ مشک نیم مائع Semi Liquid) (ہوتاہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی ۔ لیکن سوکھ کر دانے دار پاؤڈر بن جاتا ہے۔ اور نہایت خوشبو دار بن جاتی ہے۔ اسے مزید خوشبو دار بنانے کے لئے مہینوں یا سالوں تک الکحل میں بھگو کر رکھا جاتا ہے۔
مشک ہرن انتہائی شر میلا جانور ہے جو سارا دن سوتا ہے اور شام کو اندھیرا ہونے کے بعد ہی اپنی غذا حاصل کرنے کے لے باہر نکلتا ہے۔ پھول اور کمبھی (Lichen) اس کی خاص اور مرغوب خوراک ہیں۔مشک ہرن (کستوری ہرن) در اصل ہرن کے خاندان کا حصہ نہیں ہے۔
اسکا سائنسی نام Moschus moschiferus اور خاندان Moschidae ہے اور اسکے سینگ نہیں ہوتے جبکہ حقیقی ہرن کا خاندان Cervidae ہے جسکے سینگ ہو تے ہیں مشک ہرن کے سینگ تو نہیں ہوتے، لیکن جارحانہ بڑے بڑے دانت ہوتے ہیں۔ مشک ہرن بکروں کے خاندان Bovidae, سے زیادہ قربت رکھتے ہیں
مشک کی مانگ کی بنا پر مشک ہرن کی آبادی میں بڑی کمی واقع ہو گئی ہے،کیونکہ ماضی میں ہرن کا شکار کرکے ہی مشک حاصل کیا جاتا تھا تاہم، اب جانور کو نقصان پہنچائے بغیر زندہ نر ہرن سے کستوری نکا لا جا سکتا ہے۔ اب جانور کو بے حوش کرکے ایک تار کے ذریعہ غدود نکالنا ممکن ہوگیا ہے
ہمالیائی کستوری جموں و کشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اور اروناچل پردیش میں آٹھ ہزار فٹ سے زیادہ اونچائی پائے جاتے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا میں کستوری ہرن کی آبادی کا تخمینہ تقریباً پانچ لاکھ لگایا گیا ہے
موجودہ سائنسی تحقیقات سے اس بات کا علم ہواہے کہ دُنیا کی جتنی خوشبوئیں ہیں ان میں مشک ایسی خوشبو ہے جو سب ے زیادہ فضا کو عطر بیز کرتی ہے۔ یہ فضا کو مہکا تو دیتی ہے لیکن اس میں خود کوئی خاص کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔
برخلاف اس کے کسی دوسری قسم کی خوشبو آہستہ آہستہ مہک کر ختم ہوتی جاتی ہے۔ مشک کے متعلق یہ بھی تجربہ کیا گیا ہے کہ اگر ایک گرام مشک کو تین ہزار گرام (تین کلو) وزن کے برابر کسی بغیر خوشبودار شے (مٹی، ریت، اسٹارچ پائوڈر) میں ملادیا جائے تو بھی مشک کی خوشبو کی تیزی برقرار رہے گی اور وہ اچھی طرح جانی پہچانی جاسکے گی۔
مشک کی تجارت عرب وہند کے درمیان، زمانہ قدیم سے ہوتی چلی آرہی ہے۔
مصر اور یونان کے بازاروں میں مشک عربوں کے توسط سے پہنچتا تھا۔ مولانا سیّد سلیمان ندوی نے مختلف سیاحوں اور جغرافی دانوں کے حوالوں سے مشک کی تجارت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہی کہ خوارزمی نے مفاتیح العلوم میں بتایا ہے کہ مشک تبّت سے لایا جاتا تھا، ۔
سنسکرت کی قدیم تصنیف ’’بھاواپرکاسا‘‘ میں مشک کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں تبتی مشک کو سب سے اچھا بتایا گیا ہے۔ ہندوستان پر انگریزوں کے اقتدار کے دوران مشک کی تجارت اتنے بڑے پیمانے پر شروع کردی گئی کہ ایک اندازے کے مطابق 1890ء میں ہندوستان سے ایک لاکھ روپے سے زیادہ کی مالیت کا مشک انگلینڈ روانہ کیا گیا جس کو حاصل کرنے کے لئے تقریباً دس ہزار نرکستوری ہرنوں کا شکار کیا گیا۔
کیمیائی طور مشک کا اہم جز مسکون (Musconeہے۔ دوسرےاجزاء اسطرح ہیں۔
steroids, fatty acerb and, Peptides
سمجھا جاتا ہے کہ مشک محرک نشاط ہے۔
یہ بلغم کو خارج کرتا ہے، پیشاب آور ہے، پسینہ زیادہ پیدا کرتا ہے، تشنج کو کم کرتا ہے اور قوتِ باہ کو بڑھاتا ہے اس کو مندرجہ ذیل امراض میں بھی مفید بتایا گیا ہے
فالج۔السر۔ کومہ۔ٹیومر۔اعصابی کمزوری۔امراض قلب۔