آج 20نومبربدھ کے روز جھارکھنڈ میں دوسرے مرحلہ کی پولنگ ہورہی ہے جب کہ مہاراشٹر کے عوام اپنے تمام 288 ارکان اسمبلی منتخب کرنے کیلئے آج ایک ہی مرحلہ کی پولنگ میں اپنے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کررہے ہیں۔مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے 2024 کے انتخابات نہ صرف ان ریاستوں کی سیاسی سمت کا تعین کریں گے،بلکہ ان کا پورے ملک کی سیاست اور معیشت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔ دونوں ریاستوں میں انتخابی ماحول اس مرتبہ پیچیدہ اور متنازع ہے،جہاں سیاسی جماعتیں اپنی کامیابی کیلئے مختلف حکمت عملیوں کا سہارا لے رہی ہیں،جن میں فلاحی اسکیموں کے وعدے اور سیاسی جوڑ توڑ نمایاں ہیں۔ ان حکمت عملیوں کے عملی نفاذ پر سوالات اٹھ رہے ہیں،خاص طور پر اس بات پر کہ یہ وعدے کس حد تک معاشی استحکام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکمت عملی میں ’’ہندوتو‘‘ ایجنڈے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے،جسے فلاحی اسکیموں کے وعدوں کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ خاص طور پر خواتین کو ماہانہ نقد رقم دینے کا وعدہ بی جے پی کیلئے عوامی حمایت حاصل کرنے کا ایک طاقتور ہتھیار بن چکا ہے۔ یہ قدم،جو حکومت کی طرف سے معاشی بہتری کی کوشش کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے،درحقیقت سیاسی مفادات کے حصول کا ایک وسیلہ ہے،جس کا مقصد مخصوص سماجی طبقات کی حمایت کو اپنے حق میں کرنا ہے۔
اس حکمت عملی کو چیلنج کرتے ہوئے، اپوزیشن جماعتوں، خصوصاً بہوجن وکاس اگھاڑی اور کانگریس نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انتخابات میں نتائج کو متاثر کرنے کیلئے نقد رقم کی تقسیم میں ملوث ہے۔ ویرار کے ایک ہوٹل میں ہونے والے واقعہ نے ان الزامات کو مزید تقویت دی ہے،جہاں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں پر ووٹروں کو رشوت دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ مہاراشٹر کے پال گھر ضلع میں واقع ویرار علاقے میں بی جے پی کے سینئر رہنماؤں پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ہوٹلوں میں ووٹروں کو رشوت دینے کی کوشش کی،جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابات میں نقد رقم کا استعمال صرف فلاحی اسکیموں تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کا استعمال ووٹ خریدنے کیلئے بھی ہو رہا ہے۔
نقد رقم کی تقسیم،چاہے وہ فلاحی اسکیموں کے تحت ہو یا رشوت کی صورت میں،سیاسی اخلاقیات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہ عمل ایک طرف عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان بدعنوانی کے ماحول کو فروغ دیتا ہے۔ جب سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کیلئے نقد رقم کا استعمال کرتی ہیں تو اس سے ایک بے اعتمادی کا رجحان پیدا ہوتا ہے جو جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے۔
دوسری جانب،جھارکھنڈ میں بھی انتخابی حکمت عملی کا مرکز فلاحی اسکیموں کا وعدہ ہے۔ یہاں سیاسی جماعتیں عوامی حمایت حاصل کرنے کیلئے مختلف اسکیمیں پیش کر رہی ہیں،لیکن ان وعدوں کے عملی نفاذ پر تحفظات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ ہیمنت سورین اور بی جے پی کے درمیان سیاسی کشمکش عروج پر ہے اور فلاحی اسکیموں کا اعلان ایک طاقتور سیاسی ہتھیار بن چکا ہے،جس کا مقصد عوامی جذبات کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے۔
دونوں ریاستوں میں فلاحی اسکیموں کے وعدے اگرچہ عوامی فلاح کیلئے اہم نظر آتے ہیں،مگر ان کا عملی نفاذ معیشت پر اضافی مالی بوجھ ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مہاراشٹر اور جھارکھنڈ دونوں ہی مالی بحران کا شکار ہیں اور ان وعدوں کو عملی جامہ پہنانا ریاستی خزانے پر دبائو ڈال سکتا ہے۔ ان اسکیموں کے ذریعے عوامی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے،لیکن یہ بوجھ ریاستی معیشت پر سنگین اثرات مرتب کر سکتا ہے،خاص طور پر جب مالی وسائل پہلے ہی محدود ہوں۔
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں نقد رقم کی تقسیم کے ذریعے ووٹروں کو متاثر کرنے کی حکمت عملی انتخابی سیاست کے ایک بدعنوان پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ صرف سیاسی مفادات کے حصول کا ذریعہ نہیں بن رہی ہے بلکہ معیشت اور سماج پر اس کے گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ عوامی فلاح کیلئے نظر آ رہا ہے، وہیں دوسری طرف اس کے عملی نفاذ سے معاشی مشکلات، سیاسی اخلاقیات کی کمزوری اور سماجی تقسیم جیسے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاستدان اور عوام اس نوعیت کی حکمت عملیوں کے نتائج کو سمجھیں اور ان کے اثرات سے آگاہ ہوں تاکہ ایک مضبوط اور شفاف جمہوری عمل کو فروغ دیا جا سکے۔
مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے انتخابات کے نتائج نہ صرف ان ریاستوں کی سیاسی صورتحال پر اثر ڈالیں گے بلکہ پورے ملک کی معیشت اور سیاسی منظرنامے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ان انتخابات میں فلاحی اسکیموں کے وعدے اور نقد رقم کی تقسیم کے الزامات سیاسی جوڑ توڑ کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں اور ان وعدوں کا عملی نفاذ معیشت پر اضافی بوجھ ڈال سکتا ہے، جس سے ریاستی خزانے پر دبائو بڑھ سکتا ہے۔یقینی طورپر،یہ انتخابات ملکی معیشت اور عوامی جذبات کو ایک نئے مرحلے میں داخل کریں گے۔ ان انتخابات کے نتائج آئندہ برسوں تک سیاسی اور اقتصادی منظرنامے پر اثر انداز ہوں گے اور یہ طے کریں گے کہ ملک کی سیاسی سمت کس طرف جائے گی۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS