ڈپریشن، مایوسی و نااُمیدی کا سدِباب

1 day ago 1

November 19, 2024

مایوسی اور نااُمیدی یا ڈپریشن عدم اطمینان کا ایسا جذبہ ہے جو توقعات یا اُمیدوں کی ناکامی کی وجہ سے ابھر کر سامنے آتا ہے۔ مایوسی کا شکار شخص کی نظر محض منفی نتیجے پر ہی مرکوز ہوتی ہےجو کہ نفسیاتی تناؤ کاایک بڑا سبب بنتا ہے،جس کے نتیجے میںانسان کی فطرت میں منفی سوچ، مثبت سوچ کے مقابلے میں زیادہ غالب ہوجاتی ہے۔ یہی منفی خیالات مایوسی کو جنم دیتےہیں ، اِسے پروان چڑھاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان قنوطیت، مایوسی ،عدم اطمینان اور اضطراب کی ایک جیتی جاگتی مثال بن جاتا ہے۔ انسان کی یہی منفی سوچ والی عادت اس مشینی دور میں زیادہ شد ومد کے ساتھ ظاہر ہونے لگی ہے۔دورِ جدید میں خودکشی کا لفظ اب ہر دن خبروں میں آتا ہے،گویایہ نفسیاتی بیماری اب عام ہوچکی ہے۔ اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں انسان کا رشتہ جس طرح اپنے خالق ومالک سے کمزور ہوتا جارہا ہے، اس کے نتیجے میں ناامیدی اور مایوسی سارے معاشرے میں اپنے پاؤں پسارتی ہی جارہی ہے۔مایوسی کا اول سبب جہالت ہی ہوتی ہے کہ بندہ اپنی جہالت اور کم علمی کے سبب رحمت ِالٰہی سے مایوسی جیسے موذی گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔جس کے علاج کے لئے لازم ہے کہ انسان دُنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم بھی حاصل کرےاور آخرت میں لے جانے والے اعمال اوراُن پر ملنے والے جزا و سزا پر غور وفکر کرے تاکہ اللہ کی رحمتِ کاملہ پر اُس کا یقین پختہ ہوجائے اور مایوسی و نااُمیدی اس سے دور بھاگ جائے۔دوسرا سبب بے صبری ہے۔ کسی آزمائش یا مصیبت پر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے واویلا کرنے سے رحمتِ الٰہی سے مایوسی پیدا ہوتی ہے۔اس لئےبندے کو چاہئے کہ مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت ڈالے اور یہ ذہن بنائے کہ اللہ نے مجھے اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو میں اس پر بے صبری کا مظاہرہ کرکے اجر وثواب کیوں ضائع کروں ۔ تیسرا سبب دوسروں کی پُر آسائش زندگی پر نظر رکھنا ہے۔ جب انسان کسی کی پُرآسائش زندگی پر غور وفکر کرتا ہے تو اسے اپنی زندگی پر سخت تشویش ہوتی ہے، یوں یہ انسان رحمتِ الٰہی سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اس لئےہر شخص دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنی زندگی پر غور وفکر کرے ، ربّ کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت اختیار کرےاوراس بات پر غور کرے کہ جو شخص دنیا میں جتنی بھی پُرآسائش زندگی بسر کرے گا، ہوسکتا ہے کل بروز قیامت اسے اتنا ہی سخت حساب وکتاب دینا پڑے۔ لہٰذاپُرآسائش زندگی کی خواہش کرنے کے بجائے سادہ طرزِ زندگی اپنانے ہی میں عافیت ہے۔ایک اور سبب بُری صحبت ہے۔جب کوئی فرد ایسے دنیا دار لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے جو خود مایوسی کا شکار ہوتے ہیں تو ان کی صحبت کی وجہ سے یہ بھی مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ سب سے پہلے ایسے لوگوں کی صحبت ترک کرکے نیک پرہیزگار اور متقی لوگوں کی صحبت اختیار کرے، اللہ والوں کے پاس بیٹھے تاکہ مایوسی کے سیاہ بادل چھٹ جائیں اور رحمتِ الٰہی پر یقین کی بارش نازل ہو۔بہت سارے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم پر مصیبت آئی ہی اتنی بڑی ہے کہ اب صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا ہے۔ اس موقع پر جہاں اسلامی تعلیمات ہمیں مصیبت کے اولین مرحلے ہی سے صبر کا دامن تھام لینے کی تاکید کرتی ہیں، وہیں حوصلہ بڑھانے کے لئے یہ خوشخبری بھی دیتی ہیں کہ انسان کی جتنی بڑی آزمائش ہوگی، اتنا ہی بڑا اجر اس پر ملے گا۔یاد رکھیںکہ قرآن مجید میں بڑے سے بڑے گناہ گار کو حتیٰ کہ خدا کو نہ ماننے والوں کو بھی اس کی رحمت کی اُمید دلا کر خدا کے قریب ہوجانے اور اس کی فرماں برداری اختیار کرنے کی طرف بلایا گیاہے۔ اللہ کی طرف لوٹ آنے پر پچھلے تمام گناہ معاف کر دینے کی نوید سنائی گئی ہے۔ ہمیں اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر اللہ چاہے تو کسی کے ایک گناہ پر ایسی پکڑ کرے کہ ساری نیکیاں کم پڑ جائیں اور اگر وہ چاہے تو کسی کو ایک نیکی پر اپنی رحمت سے ایسا نوازے کہ بڑے بڑے گناہوں سے درگزر کر دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ وہ گناہوں پر فوراً انسان کی پکڑ نہیں کرتا ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہمیشہ مثبت سوچنے، مایوسی سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت کا سہارا لینے کی توفیق عطا فرمائے۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article