November 19, 2024
شاہ محمد ماگر ے۔ڈوڈہ
بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کسی بھی قوم کا مستقبل بناتی ہے اور اسکول ان کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو اچھی صحت، مضبوط ذہنی صلاحیتیں اور معاشرتی اقدار بھی سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکول کا ماحول اور اساتذہ کا رویہ بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، جو آگے چل کر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں بچوں کو نہ صرف کتابی علم دیا جاتا ہے بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی نکھارا جاتا ہے۔اساتذہ تعلیم کے علاوہ اسکولوں میں کھیل کود اور جسمانی سرگرمیوں سے بچوں کے جسمانی نشوونما کو بہتر بناتےہیں۔ بچوں کو کھیل کے میدان میں مختلف کھیلوں میں شامل کیا جائے تاکہ ان کی جسمانی صلاحیتیں بھی بہتر ہوں اور صحت مند زندگی گزارنے کی عادت پیدا ہو۔منتظمین کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کےلئے بچوں کو مواقع فراہم کریں۔ اس سلسلے میں ڈوڈہ کے رہنے والے ریٹائرڈماسٹر محمد شفیع کہتے ہیں کہ اپنے آپ سے عہد کیجئے کہ آپ اپنا اسکول ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ آپ کے پرنسپل، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ آپ کے رابطے میں رہیں گے تاکہ جب آپ کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائیں تو انہیں آپ پر فخر ہو اور آپ اپنے اسکول اور یہاں کے طلبہ کیلئے کچھ بہتر کرسکیں۔سماجی کارکن ریحانہ بانو کہتی ہیں کہ کالج کی زندگی ہو یا عملی زندگی، اِن سیڑھیوں پر قدم رکھنا اسکول ہی سکھاتا ہے، بچپن سے لے کر نوجوانی تک، انسان کا سفر اسکول ہی میں طے ہوتا ہے، اسی مدت میں وہ ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی طور پر نشو ونما پاتا ہے۔اسکول کی لائبریری سے کتابیں لینا اور اسے پڑھنا،یہ قیمتی یاد غالباً ہر طالب علم کے ذہن میں ہمیشہ رہتی ہے۔ہر انسان جونیئر کے جی سے لے کر دسویں تک اسکول میں تقریباً ۱۲ سال گزارتا ہے۔ بیشتر طلبہ ایسے ہیں جو ایک ہی اسکول میں اپنی زندگی کے اہم سال گزارتے ہیں جبکہ چند ایسے ہوتے ہیں جو بحالت مجبوری اسکول بدلتے ہیں۔ یہی وہ مدت ہے جس میں طالب علم کو صحیح غلط اور اچھے برے میں فرق کرنا آتا ہے لیکن اسکول میں گزارے گئے یہ ۱۲ سال صرف چند افراد ہی کی زندگی کا اہم حصہ بن پاتے ہیں ۔ اسکولی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بیشتر طلبہ اپنے اسکول کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ اپنے اساتذہ، مددگار عملہ اور پرنسپل سے ملاقات نہیں کرتے۔ اس لئے اسکول صرف ایک عمارت بن کر رہ جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ انسان کو اسکول کی یاد شاذ ونادر ہی آتی ہے۔ وہ اسکول جاکر وہاں کے درو دیوار کو محسوس کرنے یا تدریسی اور غیر تدریسی عملے سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا۔مقامی صحافی بابر نفیس کہتے ہیں کہ ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ تا عمر اپنے اسکول سے جڑا رہے۔سکول میں سکھائی جانے والی باتیں اسے زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔بے شک والدین بچوں کے پہلے استاد ہوتے ہیں لیکن اساتذہ ان کے دوسرے والدین ہوتے ہیں۔ ایک بچہ اسکول میں اساتذہ کے ساتھ اتنا ہی وقت گزارتا ہے جتنا وہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ۔اسکول سے ہی انسان سیکھتا ہے کہ ٹیم ورک کیا ہے، اچھے اخلاق کیا ہوتے ہیں، اتحاد کی طاقت کیا ہے، اشتراک کسے کہتے ہیں اور ذمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں۔ اسکول کے احاطے میں انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو دریافت کرتا ہے اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تمام تجربات اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں جو عملی زندگی میں اسے ایک کامیاب انسان بننے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
سماجی کارکن نشاط قاضی نے بتایاکہ اسکول، کالج میں جانے کی سیڑھی ہے۔ اسکولی تعلیم کے بغیر انسان کالج میں نہیں جاسکتا۔کالج کی ایک طالبہ خان سہرش کہتی ہیں کہ کامیاب زندگی گزارنے اور اپنے خوابوں کو پانے کیلئے کالج انتہائی اہم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد انسان اچھی ملازمت حاصل کرسکتا ہے اور بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔معاشرے میں رہنے کا ہنر،تعلیم کے بغیرانسان معاشرے میں صحیح طریقے سے رہنے کا ہنر نہیں سیکھ سکتا۔ اسکول میں اسے سماج کے مختلف طبقات کے طلبہ سے ملنے جلنے کا موقع ملتا ہے۔ کم عمر میں انسان سمجھتا ہے کہ دیگر افراد کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔اگر انسان اسکول نہ جائے تو شاید وہ اپنی عمر اور سماج کے دیگر طبقات کے لوگوں سے نہیں مل سکے گا۔ اس طرح اس کا سماجی دائرہ محدود ہوجائے گا۔
ایک نوجوان عاقب وانی نے کہا کہ اسکول صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں کئی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ انسان کی زندگی میں اسکول کو وہ اہمیت حاصل ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اسے بچے کی زندگی کا پہلا اور سب سے اہم قدم مانا جاتا ہے۔ آج اسکول اتنے ہائی ٹیک ہوگئے ہیں اور نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ طلبہ نصابی کتابوں کے علاوہ اپنے مشاغل کو فروغ دے سکتے ہیں، ان میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، بنیادی آداب سیکھ سکتے ہیں، ملٹی ٹاسکنگ میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، سماجی مہارتوں کو فروغ دے سکتے ہیں اور ایسی ہی بہت سی چیزوں سے اسکول اپنے طلبہ کو لیس کرتا ہے۔
اس سلسلے میں زونل ایجوکیشن افیسر بھٹیاس چوہدری سلام دین نے بتایا کہ اسکولوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تدریسی عملے پر بھی دھیان دیا جا رہا ہے ا۔سکول میں کھیلنے کے میدان اور کئی طرح کے انتظامات کئے جارہے ہیں، حکومتوں کی جانب سے بھی اس طرح کا ماحول تیار کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاری ہے۔بچوں کی نشوونما میں اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔(چرخہ فیچرس)