صبیح احمد
مہاراشٹر – جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے ساتھ ساتھ کئی ریاستوں میں ضمنی انتخابات بھی ہو رہے ہیں۔ اترپردیش میں سب سے زیادہ 9 اسمبلی سیٹوں کے لیے 20 نومبر کو ضمنی انتخابات ہونے ہیں۔ دونوں طرف سے بیان بازی جاری ہے۔ ایک طرف بی جے پی ’بنٹیں گے تو کٹیں گے‘ کا نعرہ دے رہی ہے تو دوسری طرف سماجوادی پارٹی ’پی ڈی اے‘ کے نعرے سے ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ضمنی انتخابات میں کس کا بیانیہ کام کرے گا اور کس کا پلہ زیادہ بھاری ہے، یہ بہت جلد سامنے آ جائے گا۔
اکھلیش یادو کے ’پی ڈی اے‘ کے نعرہ نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بڑے پیمانے پر کام کیا تھا۔ اسی لیے بی جے پی اور خاص طور پر یوگی آدتیہ ناتھ اس بار کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے دینے کے موڈ میں نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی یہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ لوک سبھا انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ محض اتفاق تھا۔ وہیں اکھلیش یادو 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں ملنے والی کامیابی کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اگریوگی آدتیہ ناتھ کا ’بنٹیں گے تو کٹیںگے‘ کا نعرہ کام کر گیا تو اکھلیش یادو کے لیے یہ بہت مشکل ہوگا۔ اکھلیش یادو کا ’پی ڈی اے‘ کام کرتا ہے یا یوگی آدتیہ ناتھ کا ’بنٹیں گے تو کٹیں گے‘، یہ تو 23 نومبر کو ہی پتہ چلے گا۔ کئی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کا ووٹ فیصلہ کن ہوسکتا ہے۔ ان حلقوں پر سماجوادی پارٹی کی خاص نظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعظم خان کو اسٹار کمپینر کی لسٹ میں کافی اہمیت دی گئی ہے۔ اترپردیش میں جن سیٹوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں، ان میں میرا پور میں 40 فیصد، سیسامؤ میں 45 فیصد اور کندرکی میں 65 فیصد مسلم ووٹ ہیں۔ کندرکی میں 12 امیدوار میدان میں ہیں۔ ان میں صرف بی جے پی کا امیدوار غیر مسلم ہے۔اکھلیش اور یوگی دونوں کا ہی وقار دائو پر لگا ہے۔ جن کے کھاتے میں اگر کم از کم 5 سیٹیں بھی چلی گئیں تو ان کا پلہ بھاری سمجھا جائے گا۔
ویسے تو یہ ضمنی انتخابات ہیں لیکن یہ خاص طور پر وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ساکھ کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ جہاں تک اکھلیش یادو کی بات ہے تو حالیہ لوک سبھا میں ملنے والی جیت سے ان کا مورال بہت بلند ہے۔ انہیں کانگریس کی مکمل حمایت بھی حاصل ہے کیونکہ کانگریس نے ایک حکمت عملی کے تحت ان انتخابات میں اپنا ایک بھی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے۔ اس کا واحد مقصد بی جے پی کو چوٹ پہنچانا ہے اور اس کا فائدہ فی الحال سیدھے سماجوادی پارٹی کو ملنے والا ہے۔ یہ سماج وادی پارٹی کے لیے اپنے تیار کردہ ’پی ڈی اے‘ بیانیہ پر ایک بڑا امتحان بھی ہے۔ اگر یہ بیانیہ اس بار بھی کام کرگیا تو اسے اس سے مزید فائدہ ملے گا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی سب سے بڑی ساکھ اس ضمنی الیکشن میں داؤ پر لگی ہے۔ بی جے پی اور وزیراعلیٰ یوگی یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حالیہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج محض اتفاق تھے اور سماجوادی پارٹی کے اس جادو کا اثر اب زائل ہو چکا ہے۔ لیکن اگر ’بنٹیں گے تو کٹیں گے‘ کے نعرہ نے کام نہیں کیا تو یوگی اور بی جے پی کو 2027 کے الیکشن کے لیے نئے زاویے سے سوچنا پڑے گا۔
انتخابی دنگل سے کانگریس کے باہر ہوجانے سے اترپردیش میں اب وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو کے درمیان راست مقابلہ ہے۔ ان ضمنی انتخابات کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ یہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے کچھ مہینوں بعد منعقد ہو رہے ہیں جس میں انڈیا بلاک نے ریاست کی 80 پارلیمانی نشستوں میں سے 43 پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ایس پی نے 37 سیٹیں جیتی ہیں جبکہ کانگریس نے 6 پر کامیابی حاصل کی ہے۔ نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) کی سیٹوں کی تعداد 2019 کی 66 سیٹوں سے گر کر 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں صرف 36 سیٹوں پر آ گئی ہے۔ ان میں سے بی جے پی نے صرف 33 سیٹیں جیتی ہیں۔ لہٰذا ان ضمنی انتخابات سے اس بات کا پتہ چلے گاکہ آیا انڈیا بلاک بالخصوص سماجوادی پارٹی کا 2024 کے عام انتخابات کا جادو اب بھی برقرار ہے یا وہ صرف وقتی تھا۔ لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد اور اترپردیش میں 2027 کے اسمبلی انتخابات سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے یہ وقار کی بھی جنگ ہوگی۔ یہ بھی پتہ چلے گا کہ یوپی میں بی جے پی کی قسمت واقعی خراب ہوگئی ہے یا 2024 کا الیکشن صرف ایک عارضی دور تھا اور یہ کہ مودی-یوگی کی جوڑی اب بھی جیت کی گارنٹی ہے یا نہیں۔ یوگی اور اکھلیش دونوں کے لیے ہی یہ انتخابات چیلنجز سے بھرپور ہیں۔ یوگی کو جہاں لوک سبھا انتخابات کی ناکامیوں کی تلافی کرنے کا چیلنج ہے ، وہیں اکھلیش کو یہ ثابت کرنا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں ملنے والی کامیابی اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ اب لوگ بی جے پی کی پالیسیوں اور حکمرانی سے بدظن ہو کر سماجوادی پارٹی سے جڑ نے لگے ہیں اور یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔
دراصل ضمنی انتخابات کے نتائج 2027 کے اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی منظر نامہ کا ایک اہم اشاریہ ہوں گے۔ انتخابی نتائج سے یہ بات بہت حد تک واضح ہو جائے گی کہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں ہوا کا رخ کس طرف ہوگا اور اسی کی بنیاد پر سیاسی پارٹیاں اپنی پالیسیاں اور حکمت عملی طے کریں گی۔ خاص طور پر کانگریس کے لیے یہ انتخابات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ حالانکہ فی الحال وہ براہ راست انتخابی میدان میں نہیں ہے، مگر بہت باریک بینی سے وہ حالات کا جائزہ لے ر ہی ہے۔ اس الیکشن سے اسے ووٹر کے مزاج اور رجحان کا اندازہ ہوجائے گا اور پھر وہ آئندہ اسمبلی الیکشن میں اسی حساب سے انتخابی تال میل کرے گی۔ انتخابی نتائج کی بنیاد پر اسے سماجوادی پارٹی کے ساتھ آئندہ ڈیل کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔ چونکہ لوک سبھا انتخابات کے ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں، اس لیے اس الیکشن میں بھی اس کے نتائج کا اثر ضرور پڑسکتا ہے۔ ووٹروں میں یوگی حکومت سے ناراضگی کچھ حد تک اب بھی ضرور ہوگی اور اس کا سیدھا اثر انتخابی نتائج میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن بالخصوص اکھلیش یادو مسلسل ووٹروں کے رابطے میں ہیں اور انہیں اپنی طرف راغب کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انتخابی میدان میں کانگریس کے نہ ہونے کا لوگ خواہ کوئی بھی مطلب نکالیں، لیکن اس کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا ہے۔ اس سے اپوزیشن اتحاد میں مضبوط صف بندی کا ایک بڑا پیغام گیا ہے۔ یہ تمام اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو بے دخل کرنے کے لیے پوری طرح سے متحد ہیں اور اس مقصد کے لیے وقتی نقصان کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یوپی میں کم از کم یہ بات دیکھنے کو ضرور مل رہی ہے۔ اس کا فائدہ لا محالہ سماجوادی پارٹی کو ضرور مل سکتا ہے۔
بہرحال یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ ضمنی انتخابات اور عام انتخابات میں موازنہ مناسب نہیں ہے۔ 2019 کے انتخابات سے قبل 3 ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔ پھول پور، گورکھپور اور کیرانہ تینوں سیٹوں میں بی جے پی کو شکست ہوئی تھی، لیکن جب عام انتخابات ہوئے تو بی جے پی کو 2014 سے بھی زیادہ سیٹیں ملیں۔ اس لیے لوک سبھا انتخابات کے پولنگ پیٹرن کو اسمبلی ضمنی انتخابات پر نافذنہیں کیا جاسکتا۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS