حیدرآباد: مارکیٹ کی حالت خراب ہے۔ خرید و فروخت رک گئی ہے۔ تعمیراتی اجازت نامے بھی تعطل کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں نئے پروجیکٹس کا آغاز ضروری ہے یا نہیں؟ اس سوال نے ایچ ایم ڈی اے کے حکام کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ ایک وقت تھا جب ایک ایکڑ زمین 100 کروڑ روپے میں فروخت ہوتی تھی، لیکن اب قیمتیں کم کرنے کے باوجود خریدار سامنے نہیں آ رہے۔ اس ابہام میں یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر ان قیمتی زمینوں کی نیلامی کی گئی تو حکومت کو خاطر خواہ آمدنی نہیں ہو گی۔
کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد حیدرآباد کے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کو شدید دھچکا لگا ہے۔ عمارتوں کی تعمیر سے لے کر نئے لے آؤٹ کی منظوری تک ہر عمل رک گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ایچ ایم ڈی اے میں تاخیر کو ختم کرنے کے لیے خصوصی مہم چلانے کی ضرورت پیش آئی۔
حالانکہ اعلیٰ حکام نے 10 دن کے اندر اجازت دینے کی یقین دہانی کرائی، لیکن گرتی ہوئی مارکیٹ کو سنبھالنا ممکن نہیں ہو رہا۔ اس غیر یقینی صورتحال میں زمین کی نیلامی کو حکام غیر موزوں قرار دے رہے ہیں۔
کوکاپیٹ کی وہ زمینیں جنہوں نے ماضی میں کروڑوں روپے کی آمدنی فراہم کی تھی، ان میں باقی 24 ایکڑ پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہیں۔ حکومت ان پلاٹس کو ڈیولپ کرکے مارکیٹ میں لانے کا سوچ رہی ہے، لیکن زمینی حقیقت مختلف ہونے کی وجہ سے حکام نیلامی کے عمل میں آگے بڑھنے سے گریز کر رہے ہیں۔
حکومت کو نیواپولیس منصوبے سے آمدنی کی امید تھی، لیکن موجودہ حالات میں یہ ممکن نہیں لگتا۔ اسی طرح شہر کے دیگر علاقوں میں بھی زمینوں کی نیلامی کے لیے تیاری کی جا رہی ہے، لیکن حیدرآباد اور موسیٰ ندی کے انہدامی کارروائیوں کے بعد خریدار ابھی تک اس جھٹکے سے سنبھل نہیں سکے ہیں۔
تلنگانہ میں زمینوں کی نیلامی کوئی نئی بات نہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بھی زمینوں کی نیلامی سے وسائل اکٹھا کیے تھے، لیکن اس سے پہلے ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے موافق ماحول اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی یقینی بنائی گئی تھی۔
گزشتہ ایک سال کے دوران شہر میں جائیداد خریدنے کی صورتحال میں نمایاں کمی آئی ہے۔ ماضی میں حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں میں لوگ پلاٹس خریدنے میں دلچسپی لیتے تھے، لیکن کانگریس حکومت کے دوران پیدا ہونے والے مسائل نے انہیں خوف زدہ کر دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں قیمتی زمینوں کی نیلامی ممکن نہیں۔ مارکیٹ کے دوبارہ بحال ہونے تک نیلامی روک دی جائے یا پھر حکومت کو ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے خود اقدامات کرنے ہوں گے۔ بصورت دیگر، بحران زدہ مارکیٹ کو مستحکم کرنا مشکل ہو جائے گا۔