’ایک ملک ایک الیکشن‘ کا فارمولہ ہنوز معمہ

2 hours ago 1

وزیراعظم نریندرمودی نے 2014 میں ہی اعلان کیا تھا کہ ان کی پارٹی پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کرانے کے منصوبے پر غورکر رہی ہے۔ یہ بی جے پی کے ابتدائی اعلانات میں سے ایک اہم ترین اعلان ہے جس سے پورے ملک کا ماحول اور کام کرنے کا انداز بدل سکتا ہے۔ لیکن جس طرح دیگر اپوزیشن پارٹیاں اس فارمولے کے عملی پیچیدگیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہیں، اس سے یہ لگتا ہے کہ یہ تجویز بڑی پارٹیوںکے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی ہے۔ پچھلے لوک سبھا الیکشن میں وزیراعظم نریندرمودی نے اپنے اس منصوبے کی بابت اعلان کیا تھا کہ اگر تیسری مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تووہ تین مہینے کی مدت میں اس تجویز پر ٹھوس کارروائی کرے گی۔ 2023میں عام انتخابات سے قبل حکومت نے اس تجویز کے قانونی اور آئینی پہلوئوںپر غورکرنے کے لئے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی وضع کی تھی جس کی قیادت سابق صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کر رہے تھے۔ اس کمیٹی نے اس معاملے سے متعلق تمام سیاسی پارٹیوں، ماہرین قانون وآئین کے ساتھ غور کیا اوراس کے مختلف پہلوئوں پر اور عملی دشواریوںکی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کمیٹی میں 47 سیاسی پارٹیوں نے اپنے نظریات پیش کئے۔ کہاجاتا ہے کہ32پارٹیوں نے اس تجویز کی حمایت کی ہے جبکہ 15نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ کمیٹی نے چار سابق چیف جسٹس (سی جے ایم سپریم کورٹ آف انڈیا) ، 4بڑے صوبائی ہائی کورٹ کے سی جے ایم، چار سابق الیکشن کمشنر اور 8 ریاستی کمیشنوں کے سربراہوں سے بھی گفتگو کی گئی۔ اس کے علاوہ اس کمیشن نے لاء کمیشن کے چیئرمین تجارتی اداروں مثلاً سی آئی آئی، فکی اور ایسوچیم کے سربراہان اور اقتصادی امورکے ماہرین سے بات چیت کی ہے۔ اس بابت جو تجاویز کمیشن کے سامنے آئی ہیں ان کو مرکزی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور امید کی جارہی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئندہ سرمائی اجلاس میں اس تجویز کے پاس کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ ہندوستان ایک بڑا ملک ہے جس کی 29ریاستیں اور کئی مرکز کے زیرانتظام علاقے ہیں۔ کچھ ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوںکو مکمل صوبے کادرجہ حاصل نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف شہروں، اضلاع میں لوکل باڈیز کے الیکشن بھی ہوتے ہیں۔ ہندوستان کا وسیع اورعریض رقبہ اور بڑی آبادی کومدنظررکھتے ہوئے کئی ماہرین لگاتار اس کی سخت مخالفت کر رہے ہیں، مگر حکومت ہند اس موقف پر قائم ہے کہ بار بار کے الیکشن ہندوستان میں ترقیاتی کاموں اور انتظامی ڈھانچے کی مضبوطی کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ اگر ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف وسائل بچیںگے بلکہ ان منفی اثرات سے بھی نجات حاصل کی جاسکتی ہے جو انتخابات کے دوران روزمرہ کے کام کاج میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ خیال رہے کہ اس وقت چار ریاستوں میں انتخابات کی تاریخیں متوقع تھیں مگر الیکشن کمیشن نے صرف دو ریاستوں یعنی ہریانہ اورجموںوکشمیر میں ہی انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ دیگر دو ریاستوں جھارکھنڈ اورمہاراشٹر میں بعدمیں الیکشن کرائے جائیںگے۔ توقع کی جارہی ہے کہ نومبر کے آخر میں ان ریاستوں میں انتخابات کرائے جاسکیںگے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ جس طرح اٹھارہویں لوک سبھا کے انتخابا ت میں ایک طویل شیڈول جاری کیا گیا تھا اور انتخابات کرانے میں تقریباً تین ماہ گزر گئے تھے جس کی وجہ سے مختلف شعبہ جات میں کام کاج متاثر ہوا تھا۔ جب لوک سبھا انتخابات ایک ساتھ ایک مرحلے میںنہیںکرائے جاسکے تو اتنی بڑی تعداد میں ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں اور ساتھ ہی ساتھ بلدیاتی اداروںمیں انتخابات کرانا کس طرح ممکن ہے۔ ایک استدلال یہ بھی ہے کہ انتخابات کرانے میں بڑے پیمانے پر انتظامی سرگرمیاں ہوتی ہیں وہ الگ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں، پولیس، نیم مسلح دستے اور کچھ علاقوںمیں امن وقانون قائم کرنے کے لئے فوج بھی استعمال ہوتی ہے۔ ایسے حالات میں اتنی بڑی تعداد میں پورے انتظامیہ کو کس طرح موبلائز کیا جاسکتا ہے اس کے بارے میں بھی غور کرنا ہوگا۔ اندیشہ یہ ہے کہ ایک وقت میں اتنی بڑی تعدادمیں انتظامی اور پولیس افسران کا انتخابات انتظامات میں مصروف ہوناکئی عملی دشواریوںکوجنم دے سکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایک ملک ایک الیکشن کے فارمولے کے نفاذکے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی اور مرکز کے ساتھ ساتھ ریاستی اسمبلیوںکی بھی منظوری درکار ہوگی۔ اس کے بغیر مودی جی کے اس منصوبے پر عمل کرنا یا تجویز پاس کرانا ممکن نہیںہوگا۔ ماہرین کئی ایسے مسئلے اٹھا رہے ہیں جن کا تعلق سیاسی حالات سے جوڑا جارہا ہے۔ مثلاً یہ کہ اگر مرکز میں حکومت کر رہی سرکار مدت پوری کرنے سے پہلے ہی گرجاتی ہے تو اس کا کیا ہوگا۔ کیا لوک سبھا الیکشن کے ساتھ ساتھ ان تمام ریاستوںمیں بھی الیکشن کرائے جائیںگے جہاں مستحکم حکومت قائم ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر کسی بھی ریاست میں صوبائی حکومت گرجاتی ہے تو کیا ہوگا؟ اس تجویز کی حمایت کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں الیکشن ہوتے ہیں تویہ الیکشن صرف اس مدت کے لئے ہی ہوںگے جس کی مدت باقی رہ جاتی ہے یعنی اس ریاست میں مڈ ٹرم پول بقیہ مدت کے لئے ہی ہوںگے اورعام انتخابات کے ساتھ ساتھ دوبارہ اس صوبے میںالیکشن کرائے جائیںگے۔
ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ 1967سے قبل ہندوستان میں یہی فارمولہ تھا۔ یعنی ون نیشن ون پول، تمام ریاستوںمیں لوک سبھا الیکشن کے ساتھ ہی ریاستی الیکشن ہوتے تھے مگر شاستری جی کی اچانک موت کے بعد جب اندراگاندھی اقتدار میںآئیں تو انہوںنے اپنی سیاسی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے کچھ ایسے حربے استعمال کئے جن میں ایک قدم یہ بھی تھا کہ انہوںنے اس روایت کو بدل دیا۔ جب اندراگاندھی وزیراعظم بنیں تو اگلے الیکشن 1972میں ہونے تھی مگر انہوںنے قبل از وقت الیکشن کرالئے اور مدت پوری ہونے سے 15ماہ قبل ہی لوک سبھا انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اندراگاندھی کے فیصلے کے بعد ہی ان ریاستوںمیں بھی قبل از وقت انتخابات کرانے پڑے جہاں ابھی ریاستی حکومتوں کی مدت باقی تھی۔ ان میں کیرالہ، ہریانہ،بہار، ناگالینڈ، اترپردیش، پنجاب اور مغربی بنگال بھی ہیں،جہاں دوبارہ انتخابات کرائے گئے۔ اس کے بعدسے ہی ہندوستان میں لوک سبھا اوراسمبلی انتخابات ایک ساتھ کرانے کی روایت ٹوٹ گئی ہے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article