خدمت خلق سے خالق کے گھر تک

4 hours ago 1

ڈاکٹر مفتی تنظیم عالم قاسمی چشتی صابری خادم تدریس دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد
(۲)
خادم قوم وملت کی اپنے متعلقین کو اہم نصیحتیں :

اس کے بعد سات روز تک ہم لوگوں کا مکہ میں ہی قیام رہا ۔ تقریباً ہر نماز کے بعد طواف کی سعادت حاصل کرتے رہے، جس کی احادیث میں بڑی فضیلت آئی ہے اور مکہ کے قیام دوران یہ سب سے افضل عمل ہے، حج اور عمرہ کے بغیر بھی یہ مستقل عبادت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، جس طرح نماز عبادت اور موجب اجرو ثواب ہے ویسے ہی طواف بھی مستقل عبادت اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے ایک موقع پر ارشاد فرمایا : الطواف بالبیت صلاۃ الا ان اللّٰہ احل فیہ المنطق فمن نطق فلا ینطق الا بخیر ( ابن حبان ۔ ۹/ ۱۴۳) ’’ بیت اللہ شریف کا طواف نماز ہے مگر یہ کہ اللہ نے اس میں( یعنی طواف میں ) بات چیت کو حلال فرمایا ، پس جو کوئی( دوران طواف) بات کرے تو خیر و بھلائی ہی کی بات کرے ‘‘ ،ہم لوگوں کی کوشش رہتی تھی کہ حرم شریف میں حضرت حافظ صاحب کے ساتھ ہی نمازادا کریں اور آپ کی ہدایات کے مطابق عمل کریں تاہم عصر کی نماز کے بعد بیت اللہ شریف سے قریب دوسری منزل پر ایک جگہ روزانہ ہم سب جمع ہوتے تھے اور لازمی طور پر اپنے شیخ کے ساتھ مغرب اور کبھی عشاء کی نماز تک وہیں وقت گذارتے تھے، حضرت حافظ صاحب روزانہ ہم لوگوں کو مختلف موضوعات پر نصیحتیں فرماتے اور حرم شریف کی برکتوں اور سعادتوں سے بہرہ ور ہونے پر زور دیتے تھے ، آپ اندازہ کیجئے سامنے بیت اللہ ہو ، بیٹھنے کی جگہ حرم شریف کی مقدس سرزمین ہو اور سامنے لاکھوں انسانوں کے پیرو مرشد ہوں جو سچے عاشق رسول ہونے کے ساتھ صاحب ِ دل اور صاحب کشف بھی ہوں ، اس مجلس کی نورانیت اور اثر انگیزی کا کیا حال ہوگا ، ہم سب کے لئے یہ انتہائی سعادت کی بات تھی کہ سات روز مسلسل اس جگہ اپنے شیخ کے نصائح سے مستفید ہوتے رہے اور حسب استطاعت اپنے شب و روز اور سوچ و فکر میں تبدیلی لاتے رہے ۔ میں نے ساتوں دنوں کی نصیحتیں اپنی خاص ڈائری میں قلمبند کیا تھا ، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ افادۂ عام کے لئے بالترتیب پہلے سات دنوں کی گفتگو اور قیمتی نصائح کو یہاں درج کر دیا جائے۔

(۱) زائرین حرم اللہ کے مہمان ہیں :

حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے پہلی مجلس میں فرمایا: تعلقات کے اعتبار سے تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔ بعض لوگوں سے تعلقات معمولی درجہ کے ہوتے ہیں ، ان سے جب راستہ میں ملاقات ہوتی ہے تو مختصر بات چیت کے بعد ان سے انسان جدا ہوجاتا ہے ، انہیں وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا اور بعض لوگوں سے تعلقات ذرا ان سے زیادہ ہوتے ہیں ان سے ملاقات پر یہ شخص خوشی کا اظہار کرتا ہے اور انہیں ہوٹل تک لے جاکر چائے نوشی یا کھانے پینے سے ضیافت کرتا ہے اور بعض اتنے قریبی ہوتے ہیں کہ ان سے ملاقات جہاں بھی ہوتی ہے دل و جان سے ان کا استقبال کرتا ہے اور انہیں گھر تک بلاتا ہے اور اپنے گھر میں بقدر وسعت ضیافت سے نواز تا ہے اور اسے اپنے لئے سعادت سمجھتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس سے گہرا تعلق ہوتا ہے اسے ہی اپنا گھر بلایا جاتا ہے ۔ ٹھیک اللہ تعالیٰ کا بھی یہی معاملہ ہے ، وہ جس سے محبت اور پیارکرتا ہے اور جس کو پسند کرتا ہے اسے ہی اپنا گھر بلاتا ہے ، اس کا پیسوں اور عہدوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ اس لئے احادیث میں زائرین حرم کو اللہ کا مہمان کہا گیا ہے اور ان کی ہر دعاء کی قبولیت کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والا، حج یا عمرہ کرنے والا اللہ کے مہمان ہیں اسی نے انہیں یہاں بلایا ، پس وہ دعوت قبول کرکے حاضر ہو گئے اور انہوں نے اس سے مانگا تو اللہ نے اسے عطا کیا ۔ ( مجمع الزوائد ۳/ ۴۸۴)،اس لئے ہم سب کے لئے یہ خوش نصیبی کی بات ہے کہ رب نے ہم سب کو اپنا مہمان بنایا اور یہاں آنے کا شرف بخشا ، اللہ کی پاک ذات سے امید ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو محروم اور خالی ہاتھ واپس نہیں کرے گا لیکن ہم سب کی بھی ذمہ داری ہے کہ یہاں جب آئے ہیں تو ایسا سمجھیں کہ گویا ہم اللہ سے حد درجہ قریب ہیں اور اس کے قدموں پر سر رکھ کر سجدہ کررہے ہیں ، اس کی قدرت و رحمت ، اس کی شان رفعت اور اس کی عظمت و ہیبت پر نظر رکھیں ، اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کریں ، کثرت ذکر کااہتمام کریں ، ایک ایک لمحہ کی قدر کریں ۔ بڑا افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں کو دیکھ کر جو کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر سیلفی لینے میں مصروف ہیں اور یہاں عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے بجائے ویڈیو بنانے اور اپنے دوست و احباب کو بھیجنے میں ان کا وقت گذرتا ہے ، یہی لوگ ہیں جو یہاں آکر بھی خالی ہاتھ واپس چلے جاتے ہیں، یہاں سے جانے کے بعد نہ ان کے عمل میں کوئی تبدیلی آتی ہے اور نہ ان کی ہیئت ، شکل و صورت اور شب و روز میں تغیر آتا ہے ، ایک حج یا عمرہ کرنے والے کو چاہئے کہ اپنے رب کے حضور صدق دل سے توبہ کرے اور واپس جائے تو اپنی حالت کو بدلے اور اپنی باقی زندگی اللہ اور اس کے رسول ؐ کی اتباع میں گذار دے ،حضرت نے اپنا سلسلہ ٔ کلام جاری رکھتے ہوے یہ بھی فرمایا :یہ جگہ محنت اور مجاہدہ کی ہے ، ہم یہاں سونے اور آرام کرنے نہیں آئے ہیں، اسی طرح یہاں تفریح یا شاپنگ کے لئے ہرگز نہیں آئے ہیں ، ہمارے آنے کا مقصد صرف اور صرف خدا کو راضی کرنا ہے ، اس لئے آخرت کو یاد کریں اور موت کے بعد کے مناظر کو مستحضر رکھیں۔ اسلام نے احرام باندھنے کے لئے بغیر سلے ہوے دوسفید کپڑوں کے پہننے کی ہدایت دی ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد بھی اسی طرح کے بغیر سلے ہوے سفید کپڑے پہنائے جائیں گے اوراس طرح کے کپڑوں میں تمہیں دفن کیا جائے گا ۔ تمہارا ایک وقت مقرر ہے جس کی تکمیل پر مرنا ہے اور خدا کے دربار میں حاضر ہونا ہے جہاں ایک ایک لمحہ کا حساب ہوگا ، اس لئے دنیوی عیش و عشرت میں پڑ کر اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو اور نہ یہاں کی چند روزہ زندگی پر بھروسہ کرو … اللہ ہم سب کو اپنے خاص بندوں میں شامل فرمائے اور ہم سب کے عمرہ کو قبول کرے۔

(۲) حجر اسود گناہوں کو چوستا ہے :

دوسری مجلس میں حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا :مسجد حرام میں جو چیزیں محترم ، بابرکت اور فضیلت والی ہیں ان میں سے ایک حجر اسود ہے جو خانۂ کعبہ کے ایک کونہ میں نصب ہے اور جہاں سے ہر آدمی اپنا طواف شروع کرتا ہے ۔ یہ وہ پتھر ہے جو جنت سے اتارا گیا ہے ، جس وقت یہ نازل کیا گیا وہ انتہائی روشن اور چمک دار تھا ، اس کی طرف نگاہ اٹھانا مشکل تھا ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی چمک کو ختم کردیا تاکہ لوگ آسانی سے اس کا بوسہ لے سکیں اور اس کی زیارت کر سکیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم ؐسے یہ ارشاد فرماتے ہوے سنا :اِن الرکن، والمقام یاقوتتانِ مِن یاقوتِ الجنۃِ، طمس اللہ نورہما، ولو لم یطمِس نورہما لاضاء تا ما بین المشرِقِ والمغرِبِ. ( سنن ترمذی ۔ ۸۷۸)،’’ بے شک رکن ( حجر اسود) اور مقام ( مقام ابراہیم) جنت کے یاقوت میں سے دو یاقوت ( قیمتی پتھر ) ہیں اللہ نے ان کی روشنی ختم فرمادی اور وہ ان کی روشنی ختم نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق و مغرب کے درمیان روشن کر دیتے‘‘ اس حدیث میں حجر اسود کے ساتھ مقام ابراہیم کا تذکرہ ہے ، یہ وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم ؑ کھڑے ہو کر بیت اللہ کی تعمیر فرماتے تھے ۔ جب خانۂ کعبہ کی دیوار تھوڑی اونچی ہو گئی اور کسی اونچی چیز کی ضرورت پڑی تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے اس پتھر کو اتارا ، اس کی خوبی یہ تھی کہ جیسے جیسے دیوار اونچی ہوتی تھی ویسے ویسے یہ پتھر بھی اونچا ہوتا جاتا تھا اور جب کام ختم کرکے نیچے اترنا ہوتا تھا تو یہ پتھر نیچے ہوجاتا تھا گویا یہ لفٹ کا کام کرتا تھا ، اس پر ان کے قدم کے نشانات پڑ گئے تھے جو بہت دنوں تک باقی رہے ، پہلے زمانہ میں لوگ اس نقش کو چھوتے،برکت کی دعاء مانگتے اور اس کے صدقہ میں اپنی مرادیں مانگتے تھے ان کی دعاء قبول ہو جاتی تھی، کثرت استعمال کی وجہ سے وہ نقش مٹ گیا اس لئے اس کو ایک جالی میں بند کریا دیا گیا ہے۔ یہ پتھر بھی حجر اسود کی طرح انتہائی چمک دار تھا ، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس کی روشنی ختم فرمادی ،حضرت نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا :یہ پتھر جب نازل کیا گیا تھا دودھ اور برف سے بھی زیادہ سفید تھا ، اللہ نے اس میں گنہگاروں کے گناہ چوسنے کی صلاحیت رکھی ہے ، گناہ چوستے چوستے یہ اب سیاہ ہو گیا ہے اس لئے اس کو حجر اسود یعنی کالا پتھر کہا جاتا ہے ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ جب ایک پتھر جیسی سخت چیز گناہ سے متأثر ہو کر کالا ہو سکتا ہے تو انسانی دل جو گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اس پر گناہ اورمعصیت کا کس قدر اثر ہوگا ۔ اس لئے گناہ کی وجہ سے جب انسان کا دل سیاہ ہو جاتا ہے تو نیک کام کرنے کا میلان ختم ہو جاتا ہے ۔نماز، روزہ ، تلاوت ِقرآن ، ذکر و اذکار اور کسی اچھے کام میں دل نہیں لگتا بلکہ ہمیشہ برائی کی طرف توجہ جاتی ہے،اس لئے معصیت سے خاص طور پر بچنے کی ضرورت ہے، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل اس دنیا سے یہ پتھر اٹھا لیا جائے گا اور روز محشر اللہ کے سامنے اس طرح حاضر ہوگا کہ اس کی زبان ہوگی ، اس کو قدرت کی طرف سے قوت گویائی حاصل ہوگی اور یہ ان لوگوں کے حق میں ایمان کی شہادت دے گا جو لوگ ایمان کی حالت میں اس کا بوسہ یا استلام کئے ہوں گے ۔ گویا یہ پتھر ہمارے قلب و ذہن کے لئے ایکسرے مشین کی طرح ہے ، جو جیساسوچ رکھ کر یہاں آتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول ؐسے جیسی محبت ، ایمان اور عقیدہ رکھتا ہے اسی اعتبار سے یہ کل قیامت کے دن شہادت دے گا ، اس لئے طواف کرتے ہوے ہمیں اپنے سوچ اور خیالات کو پاکیزہ رکھنا چاہئے اور ادنیٰ درجہ کی نافرمانی اور لاپرواہی سے پرہیز کرنا چاہئے، اسی لئے میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کو بوسہ لیتے ہوے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ، جب استلام سے کام چل رہا ہے تو اذیت کا گناہ اپنے سر پر لینا کون سی دانش مندی ہے ؟ دین آسان ہے لیکن ہم نے خود اس کو مشکل بنا دیا ہے ، جیسے بیماری کی حالت میںنماز کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری نہیں ہے ، قیام اس سے معاف ہو جاتا ہے پھر بھی اس کے باوجود قیام کرکے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نا مناسب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ رکھے اور صحیح معنوں میں اپنی اتباع کی توفیق دے ۔

(۳) اللہ کیلئے مرنے والوں پر کبھی موت طاری نہیں ہوتی :

حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے تیسری مجلس میں فرمایا :حج اور عمرہ کے لئے جو لوگ یہاں آتے ہیں وہ غور کریں تو اس کے سارے ارکان ان پاک نفوس کی یادگار ہے جو ہزاروں سال پہلے اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور جنہوں نے اللہ کی محبت میں اپنے آپ کو فنا کردیا ، جو بھی حکم ملا اس کی تعمیل میں لگ گئے اور پیشانی پر کوئی شکن نہیں آئی ۔ میری مراد خلیل اللہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کے بیٹے سیدنا حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی بیوی سیدہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام ہیں ۔ حج کے دنو ں میں جانوروں کی قربانی دی جاتی ہے تو یہ حضرت اسماعیل ؑ کی یاد گار ہے جن کو حضرت ابراہیم ؑ نے خواب میں دیکھ کر ذبح کرنے کے لئے منیٰ لائے اور ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا ، گردن پر چھری چلادی مگر قدرت کو جان لینا مقصد نہیں تھا بلکہ صرف امتحان مقصد تھا جس میں وہ سو فیصد کامیاب ہوے ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک کے لئے اس کو تمام صاحب وسعت افراد کے لئے واجب قرار دے دیا گیا۔اگر ایک حاجی رمیٔ جمرات کرتا ہے تو یہ بھی ان حضرات کی یادگار ہے کہ قربان گاہ کی طرف جاتے ہوے جب شیطان نے بہکایا اور اللہ کے حکم کی تکمیل سے روکنے کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ کی محبت میں مغلوب ہو کر شیطان کو پتھر مارا اور وہ بالآخر اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ، یہ عمل بھی خالص اللہ کے لئے تھا جس کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا گیا۔ حج اور عمرہ کرنے والے پر صفا اور مروہ کے درمیان سعی واجب ہے ، یہ حضرت ہاجرہ ؑ کی یادگار ہے جس نے اپنے رب پر کامل اعتماد اور بھروسہ کرتے ہوے اپنے شوہر حضرت ابراہیم ؑ سے کہا تھا کہ آپ مجھے اور میرے معصوم بچہ کو اگر اللہ کے حکم سے چھوڑ کر جارہے ہیں تو جائیے میرا رب ہمیں ضائع نہیں کرے گا ۔پھر پانی کی تلاش میں انہوں نے صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگایا اور اس کے نتیجے میں آب زمزم کا ظہور ہوا۔ یہ عمل بھی اللہ کو بہت پسند آیا اور حوا ؑکی اس بیٹی کی اس ادا کو سعی کے ذریعے ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا گیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے نہایت خلو ص اور محبت الٰہی میں بیت اللہ کی تعمیر کی اور اللہ سے درخواست کی کہ اس سنسان وادی کو آبادی میں تبدیل کر دیجئے اور لوگوں کے قلوب میں اس گھر کی محبت پیدا فرما تاکہ لوگ اس کی زیارت کریں اورانہیں پھلوں کی شکل میں اچھے کھانے پینے کی چیز مہیا فرما۔ قرآن کریم میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: ’’ میرے پروردگار ! میں نے اپنی اولاد میں سے کچھ کو آپ کے قابل احترام گھر کے پاس ایک ناقابل کاشت وادی میں آباد کردیا ہے ، ہمارے پروردگار ! یہ اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں لہٰذا آپ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دیجئے اور انہیں کھانے کے لئے پھل عنایت کیجئے تاکہ وہ شکر گذار ہوں‘‘ (ابراہیم ۔ ۳۷) ،حضرت ابراہیم ؑ کی دونوں دعائیں بارگاہ الٰہی میں قبول ہویں اور آج ہم دونوں کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کررہے ہیں ۔ کوئی دل ایسا نہیں ہے جس میں بیت اللہ کی زیارت کی تڑپ نہ پائی جاتی ہو ، حج کا زمانہ ہو یا اس کے بعد کا ،سال کے ہر موسم میں دنیا کے کونے کونے سے یہاں مسلمان آتے ہیں اور اس گھر کی زیارت کو زندگی کی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں، کثرت سے لوگوں کی آمدورفت کے سبب یہ سنسان جگہ بڑی آبادی بلکہ دنیا کے ایک بڑے شہر میں بدل گیا ،پھر یہاں نہ کھیتیاں ہیں اور نہ باغات ہیں لیکن پوری دنیا کی عمدہ ترین غذاؤں اور اچھے اور تازہ پھلوں کا انبار لگا رہتا ہے ۔

غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے اہل خانہ نے اللہ کی طرف سے تمام آزمائش میں صبرو استقامت اختیار کی اور اس کی رضا کے لئے سب کچھ قربان کردیا ، اس کا صلہ یہ ملا کہ ہزاروں سال سے لوگ حج اور عمرہ کرنے والے ان کی نقل اتار کر اپنے خدا کی محبوبیت تلاش کررہے ہیں اور اس طرح وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ پوری تاریخ اسلام آپ پڑھ لیجئے جس نے بھی دین یا قوم کے لئے قربانی دی وہ آج بھی زندہ ہیں اور سیکڑوں سال کے بعد بھی عقیدت و محبت سے ان کا نام لیا جارہا ہے،حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے چند مثالیں دینے کے بعد فرمایا:میں بھی ان ہی نامور شخصیات سے حوصلہ پا کر پچھلے 29 سال سے انسانیت کی خدمت مفت انجام دے رہا ہوںجس پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد کا میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ اس کی یہ محبت اور نظر عنایت ہے کہ اس نے میری زبان میں شفا دے کر لاکھوں انسانوں میں سے مجھے منتخب کرکے اس عظیم مسند پر بٹھایا ، لاکھوں تڑپتے دلوں کا مسیحا بنایا ۔ روزانہ ہزاروں مریض یہاں بے چین ، بے قرار ، تڑپتے پریشان ہوتے ہوے آتے ہیں اور مرکز خدمت خلق میں انہیں کسی فیس کے بغیر آرام مل جاتا ہے ، وہ مسکراتے ہوے چہروں کے ساتھ واپس جاتے ہیں ۔ ان کی مسکراہٹ اور ان کی طمانیت کو دیکھ کر میرے دل کو قرار آتا ہے اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس حقیر کو اس کام کے لئے منتخب کرکے عزت بخشی ۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ میری نسلوں سے یہ کام لے گا اورخدمت خلق کی وجہ سے انہیں ہمیشہ آباد اور تابندہ رکھے گا۔

(۴) قرآن کریم ایک مقدس اور لازوال کتاب ہے:

چوتھی مجلس سے حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ :قرآن کریم آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس امت کی رہنمائی کے لئے نازل کیا۔ یہ رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے چراغ ہدایت ہے۔ دنیا ترقی کرتی ہوئی خواہ آسمان کی بلندی پر پہنچ جائے ، چاند اور سورج پر کمند ڈال دے ، سائنس اور ٹکنالوجی اپنی حدیں پار کرتی ہوئی انتہاء کو پہنچ جائے پھر بھی یہی قرآن وہ مقدس کتاب ہے جس کی روشنی میں دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں جس پر چل کر ہدایت اور کامیابی مل سکے ، اس لئے میں ہمیشہ یہ بات کہتا ہوں کہ’’ روح بیمار ہے… قرآن شفاء‘‘ ’’جسم بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’معاشرہ بیمار ہے…قرآن شفاء‘‘ ’’ماحول بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’تجارت بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’سیاست بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’صحافت بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’وکالت بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’عدالت بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘ ’’معیشت بیمار ہے …قرآن شفاء‘‘، غرض ہر طرح کی بیماری ، پریشانی اور ساری مشکلات کا حل صرف اور صرف قرآن میں ہے ، چنانچہ قرآن خود اس کی شہادت دیتا ہے ، ارشاد باری ہے : ’’ اور قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں یہ ایمان والوں کے لئے تو شفاء اور رحمت ہے اور نافرمانوں کے حق میں اس سے الٹا نقصان ہی بڑھتاجاتا ہے ‘‘( الاسراء ۸۲)ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :’’یقیناً قرآن بالکل سیدھا راستہ دکھاتا ہے اور ان مسلمانوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں خوش خبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا ثواب ہے اور قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لئے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ‘‘ ( الاسراء ۔ ۹ ۔ ۱۰)، یعنی قرآن مجید نے زندگی کے تمام مسائل میں ایسے طریقے کی رہنمائی کی ہے جو انسان کے لئے فائدہ مند اور عادلانہ زندگی پر مبنی ہے ، دنیوی زندگی میں بھی یہ انسان کو کامیاب اور خوش حال زندگی گذارنے کا سلیقہ دیتا ہے اور آخرت میں جہنم اور تمام طرح کے مشکلات سے نجات کا اسی پر انحصار ہے، ایک مسلمان کو اس پر یقین رکھنا چاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی ایسی کتاب نہیں جس میں کامیاب زندگی کا اصول بتایا گیا ہو اور جو ہمیں نجات دے سکے،حضرت حافظ صاحب نے مزید فرمایا :ہم لوگوں کے لئے یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہم لوگ آج اس مقدس سرزمین پر جمع ہیں جہاں سے قرآن کا نزول شروع ہوا ، جس کو مہبط قرآن (قرآن اترنے کی جگہ) کہا جا تاہے۔ یہیں غار حرامیں پہلی وحی نازل ہوئی اور پھر اس کے بعد موقع بموقع تیرہ سال تک یہاں قرآن نازل ہوتا رہا یہاں تک کہ آپؐ ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ اس دیار میں جتنا ہو سکے زیادہ سے زیادہ ہمیں تلاوت میں اپنا وقت گذارنا چاہئے اور موت تک اس پرعمل کرتے رہنے کے عزم کے ساتھ واپس ہونا چاہئے۔

(۵) حقوق العباد معاف نہیں ہوتے :

حضرت حافظ صاحب دامت برکاتہم نے پانچویں مجلس میں حقوق العباد سے متعلق اہم اور بہت جامع گفتگو فرمائی اور درد دل کے ساتھ اپنے مریدین اور متعلقین کو بندوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے اور ان کے مکمل حقوق ادا کرنے کی ترغیب دی جس کا خلاصہ درج ذیل ہے :جن حقوق کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات سے ہے ، وہ اگر چاہے تو توبہ استغفار کے ذریعہ ان کو معاف کردے گالیکن جن حقوق کا تعلق بندوں سے ہے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ ہم اسے معاف نہیں کریں گے ، روز محشر اس کا بدلہ بہر حال دینا ہوگا، یہاں تک کہ اگر ایک سنگھ والی بکری نے دنیامیں کسی بغیر سنگھ والی بکری کو مارا ہوگا تو بھی اس کو بدلہ دلا یا جائے گا۔ یہ بڑے خطرے کی بات ہے کہ ایک شخص دنیا میں لوگوں سے کوئی چیز لے اور اسے واپس نہ کرے یا اور کوئی حق وابستہ ہو اور اس کی طرف توجہ نہ دے اور اسی طرح دنیا سے واپس لوٹ جائے ۔ ایسے شخص کو حدیث میں مفلس کہا گیا ہے جو بہت سی عبادتیں دنیا سے لے کر جائے گا مگر اس کے ذمہ بہت سے حقوق ہوں گے جن کو ادا کئے بغیر وہ دنیا سے چل بسے گا ، قیامت کے دن تمام حقوق والوں کو ان سے حق دلایا جائے گا جس کی صورت یہ ہوگی کہ حقوق کے عوض ان کی نیکی دی جائے گی اور نیکی جب ختم ہو گی تو ارباب حق کا گناہ اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دیا جائے گا اور اس طرح وہ بہت ساری نیکیوں کے باوجود وہاں مفلس ہو جائے گا۔ اس لئے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بارہا حقوق العباد ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے: ’’ ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لئے بڑی ہلاکت ہے ، جب وہ ناپ تول کر لوگوں سے لیں تو پورا پورا لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کرکے دیں ، کیا ان کو اس کا یقین نہیں ہے کہ وہ ایک بڑے سخت دن میں دوبارہ زندہ کئے جائیں گے۔جس دن تمام لوگ سارے جہاں کے پروردگار کے حضور میں کھڑے ہوں گے‘‘۔(المطفّفین ۔ ۱ تا ۶)

ناپ تول میں کمی سے مراد ہر طرح کے حقوق ہیں ۔بیوی کا حق ، مزدور کا حق ، سامان کی قیمت مکمل نہ دینا ، کسی چیز کے تولنے اور ناپنے میں کمی کرنا، کام کم کرکے پورا پیسہ لینا اور اس طرح کی دوسری بری خصلتیں اس میں داخل ہیں۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب آنے کا بنیادی سبب یہی ناپ تول کی کمی تھی، مدینہ منورہ میں یہودیوں میں بھی یہ بری عادت پائی جاتی تھی جو ان سے دیگر باشندگان مدینہ میں بھی پھیل گئی تھی ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں خاص طور پر اس سے منع فرمایا اور کہا کہ اس بددیانتی سے وہی لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں جن کو آخرت میں جزا و سزا پر یقین ہوگا ، جن کو عنداللہ جواب دہی کا احساس نہیں ہے ان کے لئے بچنا مشکل ہوگا۔ آج کل جو حق تلفیاں عام ہوتی جارہی ہیں ان میں سے ایک بیوی کا بھی حق ہے ۔ شوہر کو یہ معلوم ہے کہ بیوی کے ذمے میرا حق ہے ، کھانا بنانا، کپڑے دھونا ، گھر میں جھاڑو دینا ، بچوں کی پرورش کرنا، خدمت کرنا اور نہ جانے کتنے حقوق شوہر اپنی بیوی سے وابستہ کرلیتا ہے اور ان کا سختی سے مطالبہ کرتا ہے لیکن اس کے ذمہ بیوی کے جو حقوق ہیں ان کی ادائیگی کی کوئی فکر نہیں ہے ، ان کو اپنا حق یاد ہے مگر بیوی کا یاد نہیں اور پھر یہیں سے بیوی کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے ، زمانۂ جاہلیت کی طرح عورتوں کو عزت کے ساتھ جینے کا حق نہیں دیا جاتا ہے اور نہ ان کے حقوق واجب الادا سمجھے جاتے ہیں ، اسی طرح مزدور اور ملازمین کے حقوق کو زیادہ سے زیادہ عام کرنا چاہئے تاکہ ان کا استحصال نہ ہو، طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ لادا جائے ، ان کے ساتھ بدتمیزی اور بدزبانی نہ کی جائے ، ان کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دی جائے،ورنہ مالکین سب کا حق مار کر حج اور عمرہ کرکے سمجھتے ہیں کہ جنت ہمارے لئے پکی ہے ، اسی طرح دیگرافراد جن کے ذمے حقوق ہوتے ہیں وہ ادا کئے بغیر سمجھتے ہیں کہ نماز ، روزہ ، حج اور عمرہ سے نجات مل جائے گی ، حالاں کہ ایسا نہیں ہے ، ہزار حج اور عمرہ بھی کر لئے جائیںبندوں کے حقوق معاف نہیں ہوتے ۔ (جاری)

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article