پروفیسر اسلم جمشید پوری
جی ہاں! بی جے پی نے دو دن میں ایک ایسا تیر چلایا ہے،جس سے اس نے دو دو شکار کیے ہیں۔ایک طرف رنگ بدلتے مسلمان ہیں تو دوسری طرف ریاست جھارکھنڈ ہے۔بی جے پی نے ایک ہی تیر سے دونوں کو شکار کیا ہے۔ آپ سب کو علم ہے کہ آج کل ملک کی دو ریاستوں میں انتخابات ہو رہے ہیں۔مہاراشٹر اور جھارکھنڈ دو ایسی ریاستیں ہیںجو الیکشن کے دور سے گزر رہی ہیں۔مہاراشٹر میں بی جے پی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ فی الحال مہا راشٹر میں بی جے پی اور اس کی معاون پارٹیوں یعنی این ڈی اے کی حکومت ہے۔ شیوسینا شندے گروپ، این سی پی کے اجیت پوار گروپ اور بی جے پی مل کر مہاراشٹر میں سر کار چلا رہے ہیں۔ آپ سب کو پتہ ہے کہ موجودہ سر کارشیو سینا اور این سی پی کو تقسیم کر کے حکومت میں آئی ہے۔اب پھر سے مہاراشٹرمیں الیکشن ہونے والے ہیں۔اس الیکشن میں بی جے پی کی حالت بے حد خراب ہے۔ایک سروے کے مطابق مہاراشٹر میں بی جے پی کی بری شکست ہونے والی ہے۔
بی جے پی کی حالت جھارکھنڈ میں بھی خستہ ہے۔یہاں دو فیز میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ایک فیز 13نومبر کو ہوچکا۔ دوسرا فیز 20 نومبر کو ہو نے والا ہے۔20 نومبر کو نصف سے زائد سیٹوں پر ووٹ ڈالے جا ئیں گے۔گرائونڈ رپورٹ کی بات کریں تو بی جے پی بھاری نقصان میں رہنے والی ہے اور جھارکھنڈ میں ہیمنت سرکار ہی دوبارہ واپس آنے والی ہے۔ایسے میں بی جے پی کے اعلیٰ افسران کے ہوش اڑ گئے ہیں،وہ بہت پریشان ہیں۔مگر بی جے پی جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں آسانی سے ہار ماننے والی نہیں ہے۔کوئی ایسی چال چلنے والی ہے کہ سب حیران رہ جائیں گے۔
بی جے پی کو جب یہ احساس ہوگیا کہ وہ جھارکھنڈ میں ہارنے والی ہے تو اس نے ایسی چال چلی، جسے نہلے پہ دہلاکہتے ہیں۔دو روز قبل ہی بی جے پی نے سرائے کالے خاں چوک کا نام تبدیل کرکے ’’ بر سا منڈا چوک ‘‘کر دیا ہے۔اس اہم بات کا اعلان ملک کے وزیراعظم جناب نریندر مودی نے کیا۔ایسا کر کے انہوں نے جھارکھنڈ کے عوام کو جذباتی کردیا ۔ دوسری طرف انہیں یہ بات اچھی طرح پتہ ہے کہ دہلی کے کسی ایسے چوک کا نام بدلنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اور مسلمان تو اس کے خلاف آواز اٹھانے والے نہیں ہیں۔بی جے پی نے اس تیر سے دو نہیں کئی نشانے لگائے ہیں اور اس نے ملک کی اکثریت یعنی ہندوئوں کو خوش کیا ہے اور اس کے ذریعہ ایک چال اور چلی ہے کہ اگر مسلمان احتجاج بھی کریںگے،جلسے جلوس نکالیں گے، ہنگامہ کریں گے تو اس احتجاج میں جس قدر شدت آئے گی،ہندوئوں میں پولرائزیشن اس قدربڑھے گا جس کا بھر پور فائدہ بی جے پی کو ہو گا۔
15 نومبرکو جب برسا منڈا کا 150ویں یوم پیدائش آیا تو سب حیران رہ گئے۔بی جے پی نے ملک کی کئی زبانوں کے اخبارات میں فرنٹ پیج کا اشتہار دیا جس میں برسا منڈا کا یوم پیدائش کا ذکر موجود تھا۔15نومبر کو برسا منڈا کے یوم پیدائش کو سیاست کاحصہ بنا دیا۔اس موقع پر ملک کے وزیراعظم نے کہا کہ برسا منڈا کے 150 ویں یوم پیدائش کو ’’ قبائلی یومِ وقار ‘‘ کے طور پر منایا جارہا ہے۔بھگوان برسا منڈا نے انگریزوں سے لوہا لیا اور ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔حزب ِ اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے برسا منڈا کے150 ویں یوم پیدائش پر انہیں جھارکھنڈ ہی نہیں ملک کی آزادی کا ہیرو قرار دیا، جنہوںنے قبائلی زمین،جنگلات اور ثقافت کے تحفظ کی خاطر قربانی دی اور تبدیلیٔ مذہب کی انگریزوںسے پر زور مخالفت کی۔سرائے کالے خاں چوک کا نام تبدیل کر کے برسا منڈا چوک کیے جانے اور وہاں برسا منڈا کا مجسمہ نصب کر تے ہوئے وزیرداخلہ امت شاہ نے کہا کہ آج بھگوان برسا منڈا کا یو م پیدائش ہے۔اسے قبایلی یومِ وقار کے طور پر منایا جا ئے گا۔ وہ آزادی کے جیالے تھے، انہوں نے انگریز سرکار کے تبدیلیٔ مذہب کے خلاف اس وقت آواز آٹھا ئی تھی۔اس موقع پر دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ،مرکزی وزیر منوہر لال کھڑ اور بی جے پی کے کئی اہم لیڈران موجود تھے۔
اس موقع پر جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے کہا یہ جھارکھنڈ کے لوگوں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ بھگوان برسامنڈا کے کارناموں اور قربانیوں سے بی جے پی کو کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ تو بھگوان بر سا منڈا پر بھی سیاست کر رہی ہے۔ جھارکھنڈ کے عوام انہیں بخشیں گے نہیں۔اس معاملے کو لے کر جھارکھنڈ کے عوام غصے میں ہیں۔ان پر اس کا بر عکس اثر ہوا ہے۔ انہوں نے بھگوان برسا منڈا کے یومِ پیدائش منانے کو سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا۔ انہیں لگتا ہے کہ بی جے پی نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ برسا منڈا کا ایک بہت بڑا مجسمہ (سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ جیسا)جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں نصب ہونا چاہیے تھا۔اس کے لیے فرائے لال چوک کانام تبدیل کرنا چاہیے تھا۔ایسا ہو نے سے لگتا کہ بی جے پی واقعی بھگوان برسا منڈا کی قربانیوںکو مانتی ہے۔
بھگوان برسا منڈا کا مجسمہ نصب کر کے اور سرائے کالے خاں چوک کا نام ’برسا منڈا چوک‘ کرکے بی جے پی نے جھارکھنڈ میں الیکشن کے عروج کے دنوں میں ایک نئی سیاست کا راگ الاپا ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس کا اثر انتخابات کے دوسرے دور پر پڑے۔الیکشن کمیشن آف انڈیا کو چاہیے کہ انتخابا ت کے زمانے میں صوبائی سے لے کر مرکزی حکومتوں پر ایسا کوئی کام نہ کرنے کی پابندی لگا ئے جس کا بلواسطہ یا بلا واسطہ ملک کے کسی الیکشن پر اثر پڑے۔الیکشن کمیشن کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے۔اس پر تو مرکزی سرکار کی حمایت میں کام کر نے کا سنگین الزام ہے۔ابھی حال ہی میں یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہندوئوں کو ایک کرنے کے لیے جو نعرہ ’’ بٹو گے،تو کٹو گے ‘‘ دیا،یہ نعرہ حزب اختلاف اور حلیف پارٹیوں میں بحث کا موضوع بن گیا ہے۔بی جے پی نے اسے اپنا ہتھیار بنالیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آرہی ہے۔یا اس میں بی جے پی کے خلاف قدم اُٹھانے کی ہمت نہیں۔اجیت پوار نے اس نعرے کا بائیکاٹ کیا ہے۔یہی نعرہ مسلمان لیڈر میں سے کسی نے اپنی قوم کو ایک کر نے کے لیے دیا ہوتا تو اس پر نہ صرف الیکشن کمیشن ایکشن لیتا بلکہ وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو تا۔
بی جے پی نے اپنی چال چل دی ہے۔تیر چلا دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تیر کس کس نشانے پر لگتا ہے ؟ جھارکھنڈ انتخاب پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟سرائے کالے خاں چوک کا نام بدلے جانے کو مسلمان کس طور پر لیتے ہیں؟جے ایم ایم پارٹی،بی جے پی کی اس چال کا توڑ کیاکرتی ہے ؟جھارکھنڈ کے الیکشن کا رزلٹ کیا ہوتا ہے؟کس کی سرکار بنتی ہے ؟کون اپوزیشن میں بیٹھتا ہے؟ کچھ دن بعد سب سامنے آجائے گا۔تھوڑا سا انتظار۔۔۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS