طارق حمید شاہ ندوی
من قطع میراث وارثہ ، قطع اللہ میراثہ من الجنة یوم القیامة ۔ (مشکوٰۃ۔: ۲۲۶ باب الوصایا)
والدین کی جائیداد میں نرینہ اولاد کی طرح بیٹیوں کا بھی حق اور حصہ ہوتا ہے، والدین کے جائیداد پر بھائی اور بھتیجوں کا قبضہ کرلینا اور حقیقی بیٹی کو حصے سے جبراً اور ظلماً محروم کرنا نہ صرف ناجائز اور گناہِ کبیرہ ہے بلکہ قیامت تک آنے والی اپنی نسلوں کو تباہ و برباد کرنے سے کم نہیں۔بہنوں اور بیٹوں کو ان کا حق اور حصہ اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا بلکہ تباہی اور خسارے کا باعث ہوگا۔
اگر والد اپنی زندگی میں اپنی ملکیت اولاد کے درمیان تقسیم کرتا ہے تو تمام اولاد کو برابر حصہ دینا چاہئے، کسی کو بالکلیہ محروم کر دینا گناہ عظیم ہےاحادیث مبارکہ میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ لہٰذا میراث میں سے عورتوں کا حصہ دینا لازم اور ضروری ہے۔ بہنوں اور بیٹوں کو میراث سے محروم کرنا یا مکروفریب سے اُن کے حق سے کم دینا، ظلم اور ناجائز ہے۔جو چاچا یا اسکے لڑکے اکلوتی بیٹی کے حصے پر قابض ہو کر اس کا مال کھاتے ہیں۔ وہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ جمع کر رہے ہیں۔ جائیداد یا اس کے منافع میں سے اپنے لئے زیادہ حصے لینا اور اُسے کھانا حرام ہے۔بلکہ ایک معنیٰ میں وہ گویا خنزیر کے گوشت کھانے کے مترادف ہے۔اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے انہیں اِس گناہ عظیم سے توبہ اور درست کرنے کی توفیق دے۔
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’ الارث جبری لا یسقط بالاسقاط ‘‘ترجمہ:وراثت جبری ہے، کسی کے ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہوسکتی۔
(العقود الدریہ فی تنقیح الفتاو ی الحامدیہ ،ج2،ص51،دار المعرفۃ، بیروت)
مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين.(مشكوٰة المصابيح،باب الغصب والعاریة 254/1 ط: قدیمی)
(ترجمہ: )حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین بھی از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پرڈالی جائے گی۔
’’وعن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة۔‘‘( رواه ابن ماجه)
ترجمہ :حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : رسول اللہؐ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔
ایک مقام پر مولانا احمد رضا خانؒ فرماتے ہیں:’’رہا باپ کا اسے اپنی میراث سے محروم کرنا ، وہ اگر یوں ہو کہ زبان سے لاکھ بار کہے کہ میں نے اسے محروم الارث کیا یا میرے مال میں اس کا کچھ حق نہیں یا میرے ترکہ سے اسے حصہ نہیں دیا جائے گا یا خیالِ جہال کا وہ لفظ بے اصل کہ میں نے اسے عاق کیا یا انہیں مضامین کی لاکھ تحریریں لکھے، رجسٹریاں کرائے یا اپنا کل مال اپنے فلاں وارث یا کسی غیر کو ملنے کی وصیت کر جائے ، ایسی ہزار تدبیریں ہوں،کچھ کار گر نہیں، نہ ہر گز وہ ان وجوہ سے محجوب الارث(وراثت سے محروم) ہو سکے کہ میراث حق مقرر فرمودہ رب العزۃ جل و علا(اللہ رب العزۃ جل جلالہ کی طرف سے مقرر کردہ حق ہے) جو خود لینے والے کے اسقاط یا ساقط کرنے سے ساقط نہیں ہو سکتا بلکہ جبراً (زبردستی)دلایا جائے گا، اگرچہ وہ لاکھ بار کہتا رہے مجھے اپنی وراثت منظور نہیں، میں حصہ کا مالک نہیں بنتا، میں نے اپنا حق ساقط کیا، پھر دوسرا کیونکر ساقط کر سکتا ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج18،ص168، رضا فائونڈیشن ،لاہور)
نیز اسی طرح اپنی جہالت یا رسم و رواج کی وجہ سے لڑکیوں کوان کا حصہ نہ دینا جیسا کہ بعض جگہ لڑکیوں کو مطلقاً ان کا حصہ دیا ہی نہیں جاتا،یہ بھی حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے کہ یہ کسی کے مال کو ناحق و باطل طور پر کھانے کی ایک صورت اور کفار کا طریقہ ہے۔
کسی کا مال ناحق و باطل طور پر کھانا ، ناجائز و گناہ ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ (کنزالایمان )’’اے ایمان والو!آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ۔‘‘ (پارہ5،سورۃ النساء،آیت29)
کسی کی میراث کا مال کھا جانا کفار کا طریقہ ہے۔چنانچہ کفار کی اس بُری خصلت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿(ترجمہ)’’ اور میراث کا مال ہَپ ہَپ کھاتے ہو اور مال کی نہایت محبت رکھتے ہو۔‘‘(پارہ30، سورۃ الفجر، آیت 20 تا19)
( مضمون نگارشعبہ اردو ،دوبئی گرینڈ انٹر نیشنل سکول سرینگر سے منسلک ہیں)