تعلیم یافتہ لڑکیاں ازدواجی زندگی سے محروم کیوں؟

21 hours ago 1

عتیق خان

آج تعلیم یافتہ لڑکیاں بروقت ازدواجی رشتے سے منسلک نہ ہونے کے باعث جس قدر غلط روی کی شکار ہو رہی ہیں اور جس پیمانے پر فساد معاشرہ کا سبب بن رہی ہیں ،اس سے ہمارے معاشرے کا ہر فرد بشر بخوبی واقف ہے بلکہ حد تو یہ ہے کہ آج خوشحال والدین بھی اپنی تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کے مسئلے کو لے کر خون کے آنسو رونے پر مجبور و بے بس ہیں ۔اِس کی اہم وجہ یہ ہے کہ لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے عمر کی اس منزل پر پہنچ جاتی ہیں کہ ان کے لئے مناسب جوڑے آسانی سے نہیں مل پاتے ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کا آغاز اوّلین فرصت میں ہو جائے ۔لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے کون سے اسباب کار فرما ہیں اور اس کا حل کیا ہے ؟چنانچہ اس سلسلے میں غور وفکر کرنے پر جو حل اور اسباب ہمارے سامنے آتے ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں ۔

۱۔ والدین/سرپرستان شعوری طور پر اپنی لڑکیوں کی بروقت شادی سے لاپرواہی برتتے ہیں اور عذر لنگ یہ پیش کرتے ہیں کہ لڑکیاں تو ابھی زیر تعلیم ہیں ۔اس طرح آہستہ آہستہ رشتے کی عمر نکلتی چلی جاتی ہے اور جب رشتے کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے تو بڑھتی عمر ایک اژدھے کی مانند تعلیم یافتہ لڑکیوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے ۔اس لئے لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کا آغاز بہرحال بروقت ہونا چاہیے اور اس تعلق سے والدین/سرپرستان کو تمام تر لا پرواہیوں سے سخت گریز کرنا چاہیے ۔نیز اس عذر لنگ سے بھی دامن جھاڑ نا چاہیے کہ لڑکیاں ابھی زیر تعلیم ہیں بلکہ اگر لڑکیاں ازدواجی زندگی کے لائق ہو جائیں تو دوران تعلیم بھی کوئی مناسب رشتہ دیکھ کر لڑکیوں کو ازدواجی زندگی سے منسلک کردینا چاہیے ، اور رہا تعلیم وتعلم کا مسئلہ تو شادی کے بعد بھی باہم اتفاق و محبت سے لڑکیوں کا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے ۔

۲۔ کچھ والدین کی یہ بھی خواہش ہوتی ہے کہ اگر لڑکی دسویں پاس ہے تو اس کے لیے بارہویں پاس اور بارہویں پاس کے لئے بی اے پاس ، بی اے پاس کے لئے ایم اے پاس اور ایم اے پاس کے لئے ایم فل/پی ایچ ڈی ہولڈر لڑکا مطلوب ہوتا ہے اور یوں جن لڑکیوں کو ایک پُرسکون ازدواجی زندگی گزارنے کا موقع مل سکتا ہے وہ بہتر سے بہترین اور مناسب سے مناسب ترین کی خواہش میں ازدواجی زندگی سے محروم رہتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی عمر بھی تیزی سے بڑھتی چلی جاتی ہے چنانچہ اس ذہنیت سے توبہ کرنا چاہیے اور لڑکی ۔لڑکے کی جوڑی اچھی بھلی ہو اور ایک فریق دوسرے فریق کی شرافت و نجابت کو لے کر مطمئن ہوں تو رشتے داری کرلینی چاہیے اگر چہ لڑکی کے بالمقابل لڑکا کم پڑھا لکھا ہی کیوں نہ ہو ۔

۳۔ ایک ذہنیت یہ بھی بام عروج پر ہے کہ لڑکیاں اگر ملازمت پیشہ ہیں تو لڑکے بھی ملازمت پیشہ ہونے چاہئے ،چنانچہ اگر ایسا رشتہ مل جائے تو سونے پہ سہاگا ۔لیکن تلاش بسیار کے باوجود بھی اگر اس طرح کا رشتہ نہ مل سکے تو غیر ملازمت پیشہ لڑکے کے ساتھ بھی ازدواجی رشتہ قائم کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونا چاہئےکیوں کہ اگر لڑکا تعلیم یافتہ ہے تو وہ آج نہیں تو کل خود اپنا راستہ بنالے گا ۔

۴۔ بسا اوقات لڑکے تعلیم و ملازمت میں لڑکیوں کے ہم پلّہ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ازدواجی رشتہ اُستوار نہیں ہوپاتا تو محض اس لئے کہ لڑکیوں کے والد اثر و رسوخ والے اور اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ ان کے بالمقابل لڑکوں کے والد ایک عام انسان اور ایک میڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ ایک بہت ہی بری بیماری ہے جو ہمارے معاشرے میں ناقابلِ یقین کی حد تک موجود ہے ۔اس لیے اس سلسلے میں بھی انتہائی سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور اثر و رسوخ کی شیخی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اگر چہ لڑکے اور ان کے والد ایک میڈل کلاس اور ایک عام فیملی سے تعلق رکھتے ہوں لیکن جوڑی مناسب اور معقول ہے تو ازدواجی رشتہ قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے۔

۵۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں تعلیم و ملازمت میں مساوی ہوتے ہیں لیکن لڑکیوں کے بالمقابل لڑکوں کی ماہانہ یا سالانہ آمدنی کم ہوتی ہے تو اس سبب سے بھی ازدواجی زندگی اپنے آغاز سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے، چنانچہ اس طرح کے فاسد خیالات سے بالخصوص پرہیز کرنا چاہئے اور لڑکوں کی آمدنی کم یا زیادہ اس پر نظر کرنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہئے کہ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کے لائق ہیں یا نہیں اور محض قلت آمدنی کی بنیاد پر کسی اچھے رشتے کو نظر انداز کردینا ہرگز دانشمندی نہیں ہے ۔

۶۔ لڑکیاں لڑکے دونوں تعلیم وتعلم ،ملازمت اور آمدنی میں بھی برابر ہوتے ہیں لیکن چونکہ لڑکیاں دیکھنے میں شہزادی ہوتی ہیں اور لڑکے کی پرسنالٹی (personality) شہزادے کی سی نہیں ہوتی تو اس سبب بھی ازدواجی رشتہ قائم نہیں ہو پاتا کیونکہ ایک شہزادی ،ایک شہزادے سے کم پر راضی نہیں ہو تی، اِس طرح کا نظریہ بھی لڑکیوں کی ازدواجی

زندگی کے لئے زہر ہے لہٰذا لڑکے تعلیم و ملازمت اور آمدنی کے معاملے میں ہم پلّہ ہوں تو اگر چہ وہ شہزادہ کے قبیل سے نہ ہوں پھر بھی رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہئے ۔

۷۔ لائق و فائق اور مناسب جوڑا ہونے کے باوجود والدین اپنی لڑکیوں کا رشتہ اپنے خاندان میں کرنے سے گریز کرتے ہیں اور خاندان سے باہر لائق و فائق اور مناسب رشتہ کی تلاش جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔ لہٰذا یہ بھی ایک منفی سوچ ہے ،اس سے پرہیز کرنا چاہئے اور اگر خاندان میں کوئی لائق و فائق اور مناسب رشتہ ہے تو پہلی فرصت میں قبول کرلینا چاہئے ۔

لہٰذا سب سے پہلے تو لڑکیوں کو بر وقت ازدواجی زندگی سے منسلک کرنے پر زور دیا جائے اور اس سلسلے میں خود تعلیم یافتہ لڑکیوں کو پہل کرنی چاہئے اور ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے لئے تمام طرح کے اُلٹے سیدھے افکار و خیالات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض شرعی اور اخلاقی تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔وہ اس طور پر کہ جس طرح ایک تعلیم یافتہ لڑکا ، ایک غیر تعلیم یافتہ لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرلیتا ہے ۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکا ، ایک کم تعلیم یافتہ لڑکی سے اپنا رشتہ جوڑ لیتا ہے، ایک ملازمت پیشہ لڑکا ، ایک غیر ملازمت پیشہ لڑکی کو اپنا ہمسفر قبول کر نے میں نہیں ہچکچاتا ۔ ایک کامیاب لڑکا ایک ناکام لڑکی کو اپنی شریک حیات بنانے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا ۔ ایک اثر و رسوخ رکھنے والے خاندان کا لڑکا ، ایک میڈل کلاس لڑکی سے رشتۂ ازدواج قائم کرنے میں اپنی ہتک عزت نہیں سمجھتا وغیرہ ۔تو پھر لڑکیاں ازدواجی معاملے میں ان باتوں کو اہمیت کیوں دیتی ہیں ، جب کہ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ لڑکے کے بالمقابل ازدواجی زندگی کی زیادہ ضرورت لڑکیوں کی ہوتی ہے ،کیوں کہ ازدواجی زندگی میں آجانے کے بعد لڑکیاں بہت سارے خطرات سے محفوظ ہو جاتی ہیں اور ایک نگہبان کے سائبان میں آجاتی ہیں ۔چنانچہ لڑکیوں کو اس معاملے میں مثبت فکر کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے اور ازدواجی زندگی قائم کرتے وقت محض تعلیم وتعلم ، ملازمت ، آمدنی ، اعلیٰ خاندان وغیرہ کو اہمیت نہیں دینا چاہئے بلکہ اگر لڑکے ۔ لڑکیوں کی جوڑی شرعی واخلاقی لحاظ سے اطمینان بخش ہے اور معقول و مناسب ہے تو پھر زندگی کی شاہراہ پر چل پڑنا چاہیے ، اور خود سے اس سوال کا جواب طلب کرنا چاہئے کہ جب ایک لڑکی ، اپنے بے روزگار والدین اور بھائی بہن کی کفالت کر سکتی ہے تو اپنے بے روزگار شریک سفر کی کفالت کا ذمہ کیوں نہیں اٹھا سکتی ؟ لہٰذا جس دن یہ نظریہ پروان چڑھ گیا کہ لڑکوں کی طرح لڑکیاں بھی ایک بے روزگار ہمسفر کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی کا آغاز بخوشی کر سکتی ہیں تو ہمیں کامل یقین ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ازدواجی زندگی کا ہر مسئلہ حل ہوتا نظرآئے گا۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article