شیخ ولی محمد
خطہ کشمیر میں ایرانی علماء خاص کر حضرت امیر کبیر میرسید علی ہمدانی کی آمد سے دین اسلام پھیل گیا ۔ چنانچہ انہوں نے سینکڑوں سادات کو اپنے ساتھ یہاں لائے، جنہوں نے شہر و دیہات میں جا کر فروغ اسلام کےلیے دن رات محنت کی ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں ایسی برگزیدہ شخصیات وجود میں آئیں جو اپنے کارناموں کی بناء پر بہت ہی مشہور ہیں ۔ ان ہی برگزیدہ شخصیات میں حضرت بابا داؤد خاکی ہے جو ایک باکمال عالم ، عارف ، فاضل ، ادیب اور شاعر ہیں ۔ بابا داؤد خاکی 16ویں صدی عیسوی میں 1521ء بمطابق 908 ہجری میں کلاش پورہ سرینگر میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام ملا حسن گنائی تھا جو اپنے زمانے میں ایک معروف خطاط (خوشنویس ) تھے ۔ بابا داؤد خاکی جن کا اصلی نام دولت بن حسن تھا تاہم بعد میں شیخ بابا داؤد خاکی کے نام سے ہی مشہور ہوئے۔ ایام طفلی میں ہی اپنے والد کی شفقت سے محروم ہو گئے لیکن اس کے باوجود آپ نے اپنی استعداد اور قابلیت کا بھر پورہ مظاہرہ کیا ۔ 9 سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ فرمایا اور اپنے خاندان کی روایت کو بھر قرار رکھتے ہوئے اپنے زمانے کے چوٹی کے علماء و فضلاء سے بھی استفادہ کیا ۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنے اخراجات خوشنویسی سے پورا کرتے تھے ۔ آپ ظاهری علمی صلاحیت کی بناء پر اتنے مشہور ہوئے کہ بادشاہوں نے اپنے شہزادوں کی تعلیم وتربیت کے لیے انہیں استاد مقرر کیا۔ بعد میں غیر معمولی صلاحیتوں کی بناء پر تعلیم کے ناظم اور قاضی القضاء یعنی چیف جسٹس تعینات کئےگئے ۔ اس زمانے کے مشہور عالم دین اور روحانی بزرگ حضرت شیخ حمزه مخدوم جو سلطان العارفین کے نام سے بھی مشہور ہیں، کا واسطہ بابا داؤد خاکی کے ساتھ پڑا، جب وہ شان و شوکت کے ساتھ نالہ مار روڈ پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ جارہے تھے ۔ شیخ حمزہ نے انہیں کئی سوالات پوچھے جن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ انسان 24گھنٹوں میں کتنی بار سانس لیتا ہے ۔ بابا داؤد خاکی نے جواب دیا جتنی تعداد پیغمبروں کی ہے اتنی بار انسان سانس لیتا ہے یعنی ایک لاکھ اور چوبیس ہزار بار ۔ اس پر شیخ حمزہ نے سوال کیا کہ اگر انسان نے اللہ کی یاد کے بغیر ایک سانس بھی لیا تو اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ خاکی نے جواب دیا کہ یہ عمل ایک پیغمبر کو قتل کرنے کے مترادف ہے ۔ سلطان العارفین نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بابا داؤد کو بیدار کیا ،پھر اس شاہانہ زندگی سے آپ کو کیا نسبت ہے ۔ اس پر خاکی لاجواب ہوئے ۔ اس سبق آموز نقطہ نے آپ کی ضمیر کو جگایا اور خاکی نے عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی۔ بعد میں تزکیہ نفس اور تربیت کی خاطر حضرت شیخ حمزہ کے دربار کا رُخ کرکے اُن کی صحبت پائی ۔ اپنے مرشد کی غیر معمولی تربیت سے انہوں نے دنیاوی جاہ و حشمت کو مکمل طور پر ترک کیا ۔ ساڑھے چار سال سے زائد مدت کی خلوت نشینی میں اپنے پیر طریقت کے ارشاد کے مطابق ذکر الہٰی کو اپنا مشغلہ بنا لیا تھا ۔ جب آپ پیر و مرشد کی تمام آزمائشوں پر پورے اترے تو انھوں نے خاکی کو اپنا حقیقی فرزند (جانشین) مقرر کیا۔ اپنے مرشد سے خلافت پانے کے بعد ان کے حلقہ ارشاد کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا ۔ آخر کار یہ بلند پایہ عالم اور روحانی استاد 3صفرالمضفر 994 ہجری بمطابق 1585ء جنوبی کشمیر کے اسلام آباد میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہو گئے ۔ آپ کی جسد خاکی کو بعدمیں سرینگر لایا گیا اور اپنے مرشد بزرگوار حضرت شیخ حمزه کے آستان عالیہ واقع کوہ ماران میں سپردِ خاک کیا گیا۔
اہالیان کشمیر کو حضرت شیخ بابا داؤد خاکی کے ساتھ ایک خاص عقیدت ہے۔ جہاں ہرحلقہ میں ان کا نام عقیدت و احترام سےلیا جاتا ہے وہیں اس داعی اسلام کے نام پر درسگاہیں اور مساجد تعمیر کیے گئے ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسجد کو کسی مکتبہ فکر، تنظیم یا پارٹی سے منسوب کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے بجائے اگر مسجد کا نام اللہ کے کسی پیغمبر ، صحابی ، کسی بزرگ یا داعی اسلام پر رکھا جائے تو یہ عمل بہتر ہے ۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاست کے مختلف علاقوں میں مساجد کے نام پیغمبر ،صحابی یا بزرگان دین پر رکھے گئے ہیں۔ جنوبی کشمیر میں قصبہ اسلام آباد کے ریشی بازار میں چھ سو سال پہلے حضرت بابا داؤد خاکی کے نام پر ایک مسجد شریف تعمیر کی گئی ہے۔ اسی طرح ماضی قریب میں 27 سال پہلے 1997 میں قصبہ شوپیان سے 5 کلومیٹر کی دوری پر واقع کلورہ نامی بستی میں ایک اور مسجد تعمیر کی گئی ۔ مسجد کو وسعت دینے کے لیے لوگوں نے جدید تعمیراتی تقاضوں کے مطابق سال رواں میں ایک منصوبہ ترتیب دیا ۔ 2 شوال المکرم 1445ھ عید الفطر کے دوسرے روز (12 اپریل 2024) کو پرانی مسجد شہید کی گئی۔ نماز ادا کرنے کے لیے ایک عارضی شیڈ تعمیر کیا گیا اور نئے تعمیراتی پلان کی شروعات اس وقت کی گئی جب 19 مئی 2024 (۱۰ ذی عقدہ ۱۴۴۵) میں تعمیر نو کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اس تعمیراتی منصوبے میں بستی کے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ اگر چہ نئی مسجد کا حمام اور غسل خانوں کا کام ابھی باقی ہے تاہم ایک قلیل مدت میں مسجد شریف کو نماز کے قابل بنایا گیا ۔ یہ سب کچھ اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے ۔ چھ ماہ بعد نئی تعمیر شدہ مسجد بابا داؤد خاکی کلورہ میں 8 نومبر 2024 جمتہ المبارک کی نماز مغرب ادا کی گئی۔
مساجد کی تعمیر اہل ایمان کی ایک نشانی قرار دی گئی ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشا کہ ’’ اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تو عنقریب یہ لوگ ہدایت والوں میں سے ہوں گے ۔ ‘‘(التوبہ: 18) اسی طرح نبی پاک نے فرمایا کہ جس شخص نے اللہ کے لیے مسجد بنائی وہ مسجد خواہ چھوٹی ہو یا بڑی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا (ترمذی)۔ آبادی میں اضافہ کے پیش نظر اور دور حاضر کے تعمیراتی تقاضوں کے مطابق مساجد کو وسعت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے تاہم ان دینی مراکز کو تعمیر کرنے کے دوران اہل ایمان کے لئے خلوص نیت شرط اول ہے ۔اگر اس میں ریا کاری یا دکھاوے کا کوئی عنصر داخل ہو جائے تو یہ مبارک عمل بھی ضائع ہو سکتی ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ مساجد کو جدید مضبوط تعمیراتی تقاضوں کے مطابق بنایا جائے لیکن ان کی غیر ضروری آرائش اور زیبائش سے اجتناب کیا جائے ۔ الله تعالیٰ سے یہی دعا ہے کہ ان دینی مراکز کا استعمال انتشار اور اختلاف کے بجائے آپسی اخوت اور اتحاد و اتفاق کے لئے ہو ۔ آمین
[email protected]