ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں گزشہ ہفتہ ریاض کے اندر ایک عرب و اسلامی چوٹی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، جس میں تقریباً تمام عرب و اسلامی ملکوں نے اپنی شمولیت درج کروائی اور باہمی اتحاد کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس چوٹی کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہ قرار دیا گیا تھا کہ غزہ و لبنان پر جاری اسرائیلی جنگ کو روکنے کی کوشش کی جائے گی اور جنگ بندی کے بعد تعمیر نو کے مرحلہ کے لئے پلان تیار کیا جائے گا۔ یہ مقاصد گرچہ واضح الفاظ میں بیان نہیں کئے گئے تھے، لیکن عرب و اسلامی ملکوں کے قائدین اور نمائندوں نے جن افکار و آراء کا اظہار اس کانفرنس کے دوران کیا ان سے یہی مترشح ہوتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ان عرب و مسلم قائدین نے کبھی یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ کیا ان کے عوام کے دل و دماغ میں ان کے اس اقدام کے تئیں ادنیٰ درجہ کا اعتماد و بھروسہ بھی موجود ہے یا نہیں؟ بہر حال حقیقت تو یہی ہے کہ مسلم دنیا کے عوام کو اپنے قائدین پر اور مسئلہ فلسطین کے تئیں ان کی سنجیدگی پر شک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاض میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس کے نتائج کو شاید ہی کسی نے سنجیدگی سے لیا ہو۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس قسم کی چوٹی کانفرنس سے یہ توقع بے سود ہے کہ اس کی روشنی میں ایسے عملی اقدامات کئے جائیں گے جن کی وجہ سے چار سو دنوں سے بھی زیادہ مدت سے غزہ میں جاری قتل عام کو روکا جا سکتا ہو۔ ان ملکوں کے عوام نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ غزہ پر مسلط جان گسل حصار، بھوک مری اور نسل کشی جیسے اسرائیلی جرائم کو روکنے کی کوشش ان قیادتوں نے صحیح معنی میں کبھی کی ہی نہیں۔ عوام کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس چوٹی کانفرنس میں شریک ہونے والے ممالک میں سے بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو دراصل اس مسئلہ کا کوئی حل بھی ڈھونڈنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ان میں سے اکثریت کا حال تو یہ ہے کہ وہ خود ہی مزاحمتی تنظیموں اور تحریکوں کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات تو خود اسرائیلی جارحیت میں مزاحمت کے عناصر کے خلاف صہیونی منصوبوں کی تکمیل میں معاون نظر آتے ہیں۔ اب تو یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہ گئی ہے کہ ان کھوکھلی کانفرنسوں میں جو بلند و بانگ نعرے لگائے جاتے ہیں اور فلک شگاف تقریریں کی جاتی ہیں ان کے بالکل برعکس مغربی قائدین کے ساتھ بند کمروں میں عملی اقدامات کے لئے جو فیصلے لئے جاتے ہیں وہ اسرائیلی و مغربی موقف سے الگ بالکل نہیں ہوتے۔ مسلم دنیا کے عوام کے اندر ان عرب و مسلم قائدین کے خلاف یہ منفی تاثر بے وجہ قطعا نہیں ہے۔ انہوں نے ان کو بارہا دیکھا اور جانچا تو معلوم ہوا ہے کہ ان میں حقیقی قوت عمل کا فقدان ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو آخر پچھلی بار مسئلہ فلسطین پر اسی نوعیت کی چوٹی کانفرنس میں جو فیصلے لئے گئے تھے ان کے نفاذ کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا؟ گزشتہ سال بھی ایسی ہی چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور سعودی عرب، اردن، مصر، ترکی، انڈونیشیا، نائیجیریا اور فلسطین وغیرہ کے وزراء خارجہ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر غزہ پر جاری جنگ کو روکنے کی تدبیر کی جائے۔ اس بار پھر اسی قسم کی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور اس کی صدارت بھی پھر سے سعودی عرب کے وزیر خارجہ کے سپر کی گئی ہے، لیکن اس بات کا کہیں تذکرہ تک نہیں ہے کہ آخر پچھلی قرار دادوں کا کیا ہوا اور ان کی ناکامی کے اسباب کیا تھے۔ پچھلی چوٹی کانفرنس نے اس بات کا بھی عزم دکھایا تھا کہ غزہ پر جاری حصار کو توڑا جائے گا اور انسانی امداد پہنچانے کا انتظام کیا جائے گا جس کی ذمہ داری عرب و اسلامی ممالک لیں گے، لیکن زمین پر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا۔ بلکہ اس بار تو اس مسئلہ پر زیادہ زور دار انداز میں بات بھی نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ٹرمپ کی آمد ہوچکی ہے جن کی اسرائیل پرستی بائڈن سے کئی گنا زیادہ ہے اور اس کا احساس عرب و مسلم قائدین کو خوب ہے۔ اس کے علاوہ پچھلی کانفرنس میں اس کا بھی وعدہ کیا گیا تھا کہ اسلامی مالیاتی تعاون کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ فلسطینی حکومت کو مالی، اقتصادی اور انسانی مدد کی فراہمی کا انتظام کیا جاسکے۔ لیکن اس محاذ پر بھی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا حالانکہ منامہ کانفرنس کے موقع پر فلسطینی اتھارٹی نے اس بات پر زوربھی دیا تھا کہ غزہ میں ایسے تعاون کی شدید ضرورت ہے۔ ریاض میں منعقد حالیہ کانفرنس ایک بار پھر کیوں غیر مؤثر ثابت ہوئی اس کی بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ شرکت کرنے والے مسلم و عرب ممالک نے غزہ و لبنان پر جاری اسرائیلی بربریت کو روکنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لینے کے بجائے اسے عالمی برادری اور سیکورٹی کونسل کے اوپر ڈال دی ہے جس کا دوہرا معیار کافی پہلے جگ ظاہر ہوچکا ہے۔ اس سے یہ صاف اشارہ ملتا ہے کہ یہ عرب و مسلم قائدین اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں اور جنگ بندی کے معاملہ میں کوئی سنجیدہ کوشش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ یہ ممالک اس بات کے لئے بھی تیار نہیں ہیں کہ واضح الفاظ میں اسرائیلی پروڈکٹس کے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔ ریاض کانفرنس میں جب فلسطینی زمینوں پر واقع اسرائیلی آبادکاری والے علاقوں میں موجود کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا تو اس میں عام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی بات بھی کیوں شامل نہیں کی گئی؟ کہیں اس کا یہ مقصد تو نہیں تھا کہ ان ممالک کے جو اپنے اقتصادی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم ہیں ان پر زد نہ پڑے؟ اس کانفرنس کے انعقاد کا سب سے بڑا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غزہ و لبنان میں موجود مزاحمت کی تحریکوں اور قیادتوں کو ٹھکانے لگا دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو حماس کا تذکرہ کیا گیا اور نہ ہی لبنان کی تحریک ‘‘حزب اللہ کا۔ اس کے برعکس اس بات کا اعلان کیا گیا کہ فلسطین کی پوری زمین بشمول غزہ و قدس پر فلسطینی اتھارٹی کی بالادستی ہو۔ ایسا ہی بیان لبنان کے سلسلہ میں بھی آیا۔ اس ضمن میں اس بات کو بھی دہرایا جانا چاہئے کہ اس موقع پر اسرائیل کے ان جرائم کا بھی تذکرہ نہیں کیا گیا جن کے تحت اسماعیل ھنیہ، سید حسن نصراللہ، یحییٰ سنوار اور دیگر ممتاز قائدین مزاحمت کاروںکو قتل کیا گیا۔ حالانکہ یہ ایسے نام ہیں جن کی گونج پوری دنیا میں رہی ہے۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے قائدین کی اکثریت کے ناموں سے شاید بیشتر مسلم و عرب ممالک کے عوام بے خبر ہوں گے لیکن ان شہداء کو لوگ یاد کرتے ہیں اور ان کی تفصیلات تک سے واقف ہیں۔ ان کی شہادت پر روتے اور بلکتے ہیں اور ان کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔ تو آخر ان کی قربانیوں کا ذکر پورے اہتمام کے ساتھ کیوں نہیں کیا گیا؟ اس سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ مسلم و عرب عوام اور ان کے قائدین کے درمیان کوئی نقطہ اتصال نہیں بچا ہے اور مسلم قائدین اپنے عوام کے جذبات کی نمائندگی قطعاً نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قرار دادیں دھول کی نذر ہوجاتی ہیں اور حقیقت کی زمین پر کوئی مثبت تبدیلی پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس کانفرنس میں اس بات کی بھی پوری کوشش کی گئی کہ اہل غزہ و لبنان کی پامردی و صبر کی کوئی تعریف نہ کی جائے یا پھر آئر لینڈ، جنوبی افریقہ اور کولمبیا جیسے ممالک کے موقف کو سراہا نہ جائے تاکہ ان کا اپنا نفاق واضح نہ ہو۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ایسے سنگین تاریخی مرحلہ میں جبکہ اسرائیل نے فلسطین و لبنان میں قتل و خون کی نئی مثال گزشتہ ایک سال سے قائم کر رکھی ہے لیکن پھر بھی کسی عرب ملک نے جس کا سفارتی تعلق اسرائیل سے بحال ہوچکا ہے اپنا سفارتی تعلق صہیونیوں سے نہیں توڑا۔ اس کے بالمقابل ہمیشہ مزاحمت کی تحریکوں کو لعن طعن کرتے رہے ہیں اور انہیں بے وقعت بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ ٹرمپ کی آمد کے بعد کے مشرق وسطی کی تشکیل میں اپنا کردار نبھانے کے لئے یہ قائدین جمع ہوئے تھے۔ اس کا پورا امکان ہے کہ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت میں ’معاہدہ ابراہیمی‘ کا جو کام ادھورا رہ گیا تھا اس کی تکمیل کا انتظام دوسری مدت میں کیا جائے گا۔ یہ ریاض عرب و اسلامی چوٹی کانفرنس کا انعقاد دراصل اسی کی خاطر زمین کو تیار کرنے کے لئے ہوا تھا۔ اس کانفرنس کے اختتامی بیان کا حشر بھی وہی ہوگا جو ماضی میں ہو چکا ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS