عبدالحمید مغربی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور کے رہنے والے ہیں لیکن وہ گذشتہ 28 سالوں سے ممبئی میں ٹیکسی چلا رہے ہیں۔مہاراشٹر انتخابات کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ الیکشن ’کھچڑی جیسا ہو گیا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔‘
مسلمانوں تک پہنچنے کی ادھو ٹھاکرے کی کوششوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’ادھو کی شیو سینا اب کانگریس کے ساتھ ہے، اس لیے وہ بی جے پی کی طرح ہندوتوا کو پیش نہیں کر سکتی۔’ مسلمان بی جے پی کے خلاف ووٹ دیتے ہیں، اس لیے شیو سینا کو کانگریس کے ساتھ اتحاد کرنے سے فائدہ ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔’
مہاراشٹر میں 20 نومبر کو ووٹنگ ہے۔ جبکہ اس سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی اور ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا گذشتہ اسمبلی انتخابات میں ایک ساتھ تھیں۔
اب ادھو ٹھاکرے اور بی جے پی آمنے سامنے ہیں۔ بی جے پی سے علیحدگی کے بعد ادھو ٹھاکرے نے بھی اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کی ہے اور مسلمانوں تک پہنچنے کی ان کی کوشش اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ہم ممبئی کے نریمن پوائنٹ پر تھے جہاں شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے) کا ریاستی دفتر ‘شیوالیہ’ ہے۔
یہاں مہاراشٹر کے سابق وزیر اور این سی پی (شرد پوار گروپ) کے لیڈر جیتیندر اوہاد صحافیوں سے بات کر رہے تھے کہ اسی درمیان گلے میں شیو سینا (یو بی ٹی) کے پٹے اور سروں پر ٹوپیاں پہنے کچھ مسلم کارکنوں نے جیتیندر اوہاد کے ساتھ تصویریں کھینچنا شروع کر دیں۔
میرے پاس کھڑے ایک مقامی صحافی نے کہا: ’یہ شیو سینا اب بال ٹھاکرے کی شیو سینا نہیں رہی۔‘ادھو ٹھاکرے کا ہندوتوا کا الگ نظریہ
رواں سال مئی میں لوک سبھا انتخابات کے دوران ادھو ٹھاکرے ممبئی میں چیمبور کے قریب چیتا کیمپ نامی بستی میں پہنچے تھے جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔
ادھو نے یہاں مراٹھی کے بجائے ہندی میں خطاب کیا تھا۔ مسلم ووٹروں کے ہجوم کے سامنے ادھو کہتے ہیں: ’میں شاید پہلی بار آپ کے سامنے آیا ہوں کیونکہ ہمارے درمیان ایک دیوار تھی، ہم آپس میں لڑتے تھے۔ میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں، کیا میں نے ہندوتوا چھوڑ دیا ہے؟
‘کیا آپ کو میرا ہندوتوا قبول ہے؟ میرے ہندوتوا اور بی جے پی کے ہندوتوا میں کوئی فرق ہے کہ نہیں؟ میں بھی جے شری رام کہتا ہوں لیکن میرا ہندوتوا دل میں رام ہے اور ہر ایک کو کام دینے والا ہے۔ ہمارا ہندوتوا گھر کا چولہا جلانے والا ہندوتوا ہے، گھر جلانے والا نہیں۔’
لوک سبھا انتخابات کے دوران ادھو ٹھاکرے نے شیوسینا بھون میں مسلم ووٹروں سے ملاقات کی اور انھیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ آئین کو بچانا چاہتے ہیں۔
اس سال فروری میں رائے گڑھ ضلع میں مسلم کمیونٹی نے ادھو ٹھاکرے کو مراٹھی میں لکھا ہوا قرآن ہدیہ کیا تھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’مجھے قرآن مراٹھی میں دیا گیا ہے، یہ ہمارا ہندوتوا ہے، اس لیے کسی کو ہمارے ہندوتوا پر شک نہیں کرنا چاہیے۔‘
ادھو ٹھاکرے کی مسلم ووٹروں تک پہنچنے کی یہ کوششیں ان کے والد بال ٹھاکرے کی سیاست سے بالکل مختلف ہیں۔اس کی وجہ کیا ہے اور کیا یہ کوششیں کامیاب ہیں؟ادھو کی ان کوششوں کے بارے میں مسلم ووٹروں کا کیا خیال ہے اور کیا اس کا شیو سینا کے روایتی ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑ رہا ہے؟ان پر بات کرنے سے پہلے یہ جان لیں کہ بال ٹھاکرے کی سیاست میں مسلم ووٹر کہاں تھے؟
بال ٹھاکرے کی سیاست
1987 میں ممبئی کے وِلے پارلے کے ضمنی انتخاب میں بال ٹھاکرے نے ایک میٹنگ میں کہا تھا: ‘ہم یہ الیکشن ہندوؤں کی حفاظت کے لیے لڑ رہے ہیں، ہمیں مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی پرواہ نہیں، یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور انہی کا رہے گا۔’
شیو سینا کے امیدوار رمیش پربھو نے یہ انتخاب جیتا تھا لیکن سنہ 1989 میں بمبئی ہائی کورٹ نے اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں بال ٹھاکرے اور رمیش پربھو دونوں کو قصوروار پایا اور انتخابی نتیجہ منسوخ کر دیا۔رمیش پربھو نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا لیکن دسمبر 1995 میں سپریم کورٹ نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جگدیش سرن ورما نے بھی اس کیس میں سزا کے طور پر بال ٹھاکرے پر 1995 سے 2001 تک ووٹ ڈالنے پر پابندی لگا دی تھی۔ایک وقت تھا جب بال ٹھاکرے نے مسلمانوں کے حق رائے دہی کو واپس لینے کی بات کی تھی۔ بال ٹھاکرے کے اس مطالبے کو شیوسینا نے سنہ 2015 میں بھی دہرایا تھا۔
تب شیوسینا کے لیڈر سنجے راوت نے پارٹی کے ترجمان ‘سامنا’ میں لکھا تھا: ‘جب تک مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا جاتا رہے گا، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بال ٹھاکرے نے مسلمانوں کے حق رائے دہی کو چھیننے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس دن مسلمانوں کا حق رائے دہی چھین لیا جائے گا اس دن ‘سیکولر’ ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب ہو جائے گا۔’
ادھو ٹھاکرے کی’مسلمانوں سے محبت‘ بھی زیادہ پرانی نہیں ہے۔
اپریل سنہ 2023 میں ایک پریس کانفرنس میں ادھو ٹھاکرے نے کہا تھا: ‘جس دن بابری مسجد گری، میں بالا صاحب کے پاس گیا، انھوں نے بتایا کہ بابری مسجد گر گئی ہے۔ اس کے بعد مجھے سنجے راوت کا فون آیا تو بالا صاحب نے ان سے کہا کہ اگر شیو سینکوں نے بابری مسجد کو گرایا ہے تو مجھے اس پر فخر ہے۔’
تاہم، دوسری طرف، ادھو ٹھاکرے اب ریاست بھر کے مسلم ووٹروں سے ایک ساتھ آنے کی اپیل کرتے نظر آ رہے ہیں۔ ان کے جلسوں اور دوروں میں مسلم کمیونٹی کے ووٹروں کی بھی اچھی تعداد موجود ہوتی ہے.
کیا یہ حکمت عملی کارآمد ثابت ہوگی؟
چیف منسٹر ایکناتھ شندے بھی مسلمانوں کے تئیں ادھو کے رویہ پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔شنڈے کبھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ تھے لیکن جب شیو سینا الگ ہوئی تو وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے اور ریاست کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔
12 اکتوبر کو ایکناتھ شنڈے نے کہا تھا: ‘اقتدار کی بھوک ان کے (اُدھو) کے جسم و دماغ میں داخل ہو گئی ہے۔ اب آپ پاکستان کی بولی بولنے لگے ہیں۔ بالا صاحب ایک منٹ کے لیے بھی ان کے ساتھ نہیں رہتے۔ اب اے آئی ایم آئی ایم اور شیو سینا (یو بی ٹی) میں کوئی فرق نہیں ہے۔’
گذشتہ جمعرات کو انتخابی مہم کے دوران راج ٹھاکرے نے کہا تھا کہ ‘وزیراعلیٰ بننے کے بعد ادھو ٹھاکرے نے شیوسینا کے ہورڈنگز سے ‘ہندو ہردے سمراٹ’ کو ہٹا دیا کیونکہ کانگریس اور این سی پی کو ہندو کا لفظ پسند نہیں تھا۔ کئی ہورڈنگز پر اردو میں ‘جناب بالاصاحب ٹھاکرے’ لکھا ہوا تھا۔
ادھو نے اس بیان کا جواب دیتے ہوئے راج ٹھاکرے کو ‘حج ٹھاکرے’ کہا۔ادھو نے کہا: ‘راج ٹھاکرے کی پارٹی نے مسلمانوں کو حج میں رعایت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس وقت راج ٹھاکرے کو حج ٹھاکرے کہا گیا تھا۔’راج ٹھاکرے کا طعنہ بی جے پی کے رہنما اور نائب وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے بھی دہرایا ہے۔
انھوں نے کہا: ‘اگر ووٹ کی مجبوری کے تحت کوئی ‘ہندو ہردے سمراٹ شیو سینا کے سربراہ بالا صاحب ٹھاکرے’ کو ‘جناب بالا صاحب ٹھاکرے’ کہتا ہے تو ہم اسے برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ووٹ کے لیے مجبور لوگ نہیں ہیں۔’
سینیئر صحافی جے دیو ڈولے کہتے ہیں: ‘جب سے ادھو مہاوکاس اگھاڑی یا انڈیا الائنس میں شامل ہوئے ہیں، تب سے وہ سمجھ گئے ہیں کہ ہندوتوا کا مسئلہ علاقائی پارٹیوں کے لیے اب درست نہیں ہے۔
‘پہلے ان کی پارٹی مسلمانوں اور بائیں بازو کے لوگوں کو گالی دیتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اگر ہندوتوا کی سیاست ہی کرنی ہے تو لوگوں کے لیے بی جے پی بہترین آپشن بن گئی ہے۔’مہاراشٹر میں تقریباً 12 فیصد مسلم ووٹرز ہیں اور ممبئی میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 22 فیصد ہے۔
مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ادھو ٹھاکرے کی مہم کے بارے میں ان کی پارٹی کے سینیئر لیڈر انیل پرب کہتے ہیں: ‘بالا صاحب کے وکیل، ڈاکٹر اور بہت سے لیڈر مسلمان تھے۔ بالا صاحب کبھی مسلمانوں کے خلاف نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں رہ کر پاکستان کے لیے زندہ آباد نہ کہیں اور ہمارا مسئلہ آج بھی وہی ہے۔ شیوسینا (یو بی ٹی) ہمیشہ بالا صاحب کے ہندوتوا پر آگے بڑھے گی۔’
سینیئر صحافی اور مصنف پرکاش اکولکر مسلمانوں کے شیو سینا کے ساتھ اکٹھے ہونے میں مہواکاس اگھاڑی کے کردار کو اہم سمجھتے ہیں۔پرکاش اکولکر کہتے ہیں: ‘2024 کے انتخابات واضح طور پر منقسم تھے۔ یا تو آپ مودی کے ساتھ ہیں یا نہیں ہیں۔
93 -1992میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ممبئی میں ہونے والے فسادات کے بعد مسلمانوں نے کبھی شیو سینا کو ووٹ نہیں دیا لیکن اس بار انھوں نے ووٹ دیا۔ اب لوک سبھا انتخابات کو چھ ماہ گزر چکے ہیں اور معاملات بھی بدل گئے ہیں۔’
کیا ادھو کا روایتی ووٹ بینک ان کے ہاتھ سے چلاجائے گا؟
کیا مسلمانوں کے ساتھ فیاضی کا شیو سینا کے ہندو ووٹ بینک پر کوئی اثر پڑ سکتا ہے؟
اس کے جواب میں سینیئر صحافی سدھیر سوریہ ونشی کہتے ہیں: ‘ہندو ووٹ بینک جو جانا تھا وہ ایکناتھ شندے کے ساتھ چلا گیا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے کا ہندوتوا درست ہے، وہ آج ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں۔ مسلم ووٹ بینک کی وجہ سے ادھو اگر کچھ لوک سبھا سیٹوں پر ادھو ٹھاکرے کو فائدہ ہوا ہے تو یہ ان کے حق میں ہے۔’
کئی مواقع پر بال ٹھاکرے مسلمانوں اور غداری کو جوڑتے نظر آئے اور ایک بار تو انھوں نے مسلمانوں کو ‘سبز زہر’ بھی کہا تھا۔تاہم پانچ سال قبل دسمبر 2019 میں ادھو ٹھاکرے نے بطور وزیر اعلیٰ مہاراشٹرا اسمبلی میں یہ تسلیم کیا تھا کہ مذہب کو سیاست سے جوڑنا ان کی غلطی تھی اور اس کی وجہ سے انھیں نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
اس سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں ادھو ٹھاکرے نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا نہیں کیا۔ اسمبلی انتخابات میں بھی انھوں نے صرف ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا ہے اور ہارون خان ممبئی کی ورسووا سیٹ سے شیو سینا (یو بی ٹی) کے امیدوار ہیں۔
مسلم معاشرے کی رائے
سماجی کارکن زید خان کا کہنا ہے کہ کانگریس اور شیوسینا (یو بی ٹی) مسلم کمیونٹی کے ووٹ چاہتے ہیں لیکن ان کی نمائندگی نہیں چاہتے۔
زید خان کا کہنا ہے کہ ’بالا صاحب کے وقت ہم جانتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہتے لیکن ہمیں ادھو ٹھاکرے سے امیدیں تھیں، مسلمانوں نے لوک سبھا میں انھیں جوش و خروش سے ووٹ دیا لیکن پوری مہاوکاس اگھاڑی نے ایک بھی مسلم کو ٹکٹ نہیں دیا۔
‘ہمیں اسمبلی انتخابات سے امیدیں وابستہ تھیں۔ مہاراشٹر میں 12 فیصد مسلمان ہیں۔ اس کے مطابق مسلمانوں کے لیے 36 سیٹیں بنتی ہیں لیکن انھوں نے اتنی سیٹیں نہیں دیں۔ بائیکلہ سیٹ پر 41 فیصد مسلمان ہیں پھر بھی شیو سینا (یو بی ٹی) نے یہاں منوج جمسوتکر کو ٹکٹ دیا ہے۔’
آفاق احمد دھراوی کے ووٹر ہیں اور دھراوی میں رہتے ہیں اور صحافت کرتے ہیں۔
شیو سینا اور مسلم نمائندگی کے سوال پر آفاق کہتے ہیں: ‘ہر پارٹی بی جے پی کی طرف سے بنائے گئے ہندوتوا کے ماحول سے خوفزدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیوسینا بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے حساب سے ٹکٹ نہیں دینا چاہتی۔ مسلم کمیونٹی دل سے ناراض ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ نمائندگی نہ سہی کم از کم ہماری باتیں رکھنے والا تو ہونا چاہیے۔’
نسیم صدیقی مہاراشٹر اقلیتی کمیشن (2004-2011) کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور این سی پی (شرد پوار) کے قومی ترجمان ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ شیوسینا سمیت دیگر پارٹیوں نے بھی مسلمانوں کو ان کے تناسب سے ٹکٹ نہیں دیے ہیں۔
نسیم صدیقی کہتے ہیں: ‘شیو سینا نے ایک، شرد پوار نے دو اور کانگریس نے سات آٹھ مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے۔ مسلم کمیونٹی میں ناراضگی ہے لیکن مسئلہ کسی نہ کسی طرح بی جے پی اتحاد کو روکنا ہے۔ مستقبل میں مختلف عہدوں پر مسلمانوں کا خیال رکھا جائے گا.
دونوں ‘سیناؤں’ کے لیے الیکشن کتنا اہم ہے؟
ممبئی میں شیو سینا کے ارد گرد انتخابات کی بحث کرنے والے لوگوں میں ایک بڑا سوال اٹھ رہا ہے کہ ‘اصل شیو سینا’ کون ہے؟
جون 2022 میں ایکناتھ شندے کی قیادت میں شیوسینا کے ایم ایل ایز کے ایک بڑے حصے نے باغیانہ رویہ دکھایا اور وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے خلاف محاذ کھول دیا۔
ان ایم ایل اے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی اتحاد شیو سینا کے حقیقی نظریہ کے خلاف ہے۔
اس کے بعد شندے کے وزیر اعلیٰ بنتے ہی شیوسینا کی اصل لڑائی شروع ہو گئی جو آج بھی جاری ہے۔
سینیئر صحافی سدھیر سوریاونشی نے کہا: ‘اس وقت مہاراشٹر کے بہت سے لوگوں میں یہ پیغام گیا ہے کہ شندے والی
شیو سینا چوری ہو گئی ہے۔ شیوسینا کس کی ہے اس کا فیصلہ اس اسمبلی الیکشن میں ہو جائے گا۔ ابھی اصل سچائی سامنے آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ میں شیو سینا کا معاملہ زیر التوا ہے لیکن جو ان انتخابات میں بہتر کارکردگی دکھائے گا اس پر عوام کی عدالت میں حقیقی شیو سینا ہونے پر مہر لگے گی۔’
فروری 2023 میں الیکشن کمیشن نے شیو سینا کا نام اور ان کا انتخابی نشان ‘تیر کمان’ شندے دھڑے کو الاٹ کیا جبکہ ادھو ٹھاکرے نے دلیل دی کہ شندے کے ایم ایل اے کو انحراف کی وجہ سے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔ فی الحال شیو سینا کا اصل معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔
شیوسینا کے دو دھڑوں میں تقسیم ہونے کے بعد یہ پہلا اسمبلی الیکشن ہے۔ اس سے پہلے لوک سبھا انتخابات میں دونوں پارٹیاں آمنے سامنے آچکی تھیں۔
پھر شندے کی شیو سینا نے 15 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور سات سیٹیں جیتیں اور ادھو کی شیو سینا (یو بی ٹی) نے 21 سیٹوں پر الیکشن لڑا اور 9 سیٹیں جیتیں۔
دونوں پارٹیاں 13 سیٹوں پر آمنے سامنے تھیں، جن میں سات سیٹیں شیو سینا (یو بی ٹی) نے جیتی تھیں اور چھ سیٹیں شنڈے کی شیو سینا نے جیتی تھیں۔اب اسمبلی انتخابات میں ادھو اور شندے کی پارٹیاں 45 سے زیادہ سیٹوں پر آمنے سامنے ہیں جن میں سے دونوں پارٹیوں کے امیدوار ممبئی میٹروپولیس کی 11 سے 12 سیٹوں پر ایک دوسرے کے خلاف کھڑے ہیں۔
اس کے علاوہ مراٹھواڑہ اور کونکن کی آٹھ، ودربھ کی چھ، شمالی مہاراشٹر کی چار اور مغربی مہاراشٹر کی چار سیٹوں پر ان کے امیدواروں کے درمیان سیدھا مقابلہ ہوگا۔
مہاراشٹر میں شیوسینا (یو بی ٹی) کے 94 امیدوار اور ایکناتھ شندے کی شیو سینا کے 78 امیدوار انتخابی نشان تیرکمان پر مقابلہ کر رہے ہیں۔
جب شیو سینا اور مسلم لیگ ایک ساتھ آئے
مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کا ذکر مصنف اور صحافی ویبھو پورندرے کی کتاب ‘بال ٹھاکرے اینڈ رائز آف شیو سینا’ میں کیا گیا ہے۔
ویبھو لکھتے ہیں: ‘سنہ 1972-73 میں شیو سینا نے ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (گوائی) کے ساتھ مل کر لڑا تھا۔ تاہم، شیو سینا میئر بننے کے لیے چند سیٹوں سے کم رہ گئی اور پھر شیو سینا نے مسلم لیگ سے حمایت حاصل کی اور اس کے بعد شیو سینا کے رہنما سدھیر جوشی ممبئی کے میئر بن گئے۔’
1970 کی دہائی کے آخر میں شیو سینا اور مسلم لیگ کے رہنما ایک بار پھر اسٹیج پر ایک ساتھ نظر آئے۔ ممبئی کے علاقے ناگ پاڑا میں دونوں جماعتوں کی میٹنگ ہوئی اور ادھو ٹھاکرے نے مسلم لیگ کے غلام محمود بنات والا کے ساتھ اسٹیج شیئر کیا۔
تب بال ٹھاکرے نے اپنی تقریر میں کہا تھا: ’اب سے شیوسینا اور مسلم لیگ اپنے منصفانہ حقوق کے لیے لڑیں گے(۔’ بہ شکریہ بی بی سی اردو ڈاٹ کام)