November 18, 2024
اخباروں میں شائع شدہ روزانہ خبروں کے مطابق سردیوں کے ان ایام میں بھی وادیٔ کشمیر کے لوگوں کو روز مرہ زندگی میں جو بعض بنیادی مسائل درپیش ہیں ،اُن سے وادیٔ کشمیرکے غریب عوام کا غریب ہونا ہی ایک جُرم بن گیا ہے ۔روزگار تواتر کے ساتھ ناپید ہےاور تعلیم یافتہ بے کار نوجوان دربدر بھٹک رہا ہے۔اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کوئی استحکام نہیں اور ناجائز منافع خوری بغیر کسی خوف کھٹکے کھلے عام ہورہی ہے۔بجلی اور پانی کی نایابی ، قلت اور بے ڈول فراہمی سرینگر اور مضافات کے مختلف علاقوں میں صارفین کے لئے روایتی پریشانی بنی ہوئی ہے۔ بعض اضلاع کی بیشتر آبادی پینے کے پانی کی شدید قلت یا مکمل عدم دستیابی کے باعث ندی نالوں کا ناصاف اور مُضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہورہی ہے،جس کےنتیجے میں وہ بیماریوں کا شکار ہورہی ہے۔پینے کے پانی کی عدم دستیابی سرینگرکے بعض علاقوں کےلوگوں میں بھی حکومت اورمتعلقہ محکمہ کے لئے غم و غصہ کا باعث بنی ہوئی ہے۔ظاہر ہے کہ کسی بھی حکومت کے مستحکم ،مضبوط اور کامیاب ہونے کی واضح دلیل یہی ہوتی ہے کہ اُس کے دورِ اقتدار میں عام لوگوں کی حالت میں بہتری پیدا ہو،خصوصاً غریب لوگوں کو دو وقت کی روٹی آرام سے میسر ہو اور روزمرہ استعمال کی جانے والی غذائی اجناس کی قیمتوں میں استحکام و اعتدال ہو ۔دیکھا جائے تو عام طور پر انہی باتوں پر سیاستدان، سیاست گری کرتے ہیں اور اسی سیاست گری کے تحت حکمرانی بھی حاصل کرتے ہیں۔گوکہ حکمرانی ایک آنی جانی چیز ہوتی ہے لیکن ایک کامیاب حکمران کی واضح دلیل یہی ہوتی ہے کہ اُس کا مدعا و مقصد عوام کی بے لوث خدمت ہو،غریب و پسماندہ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم ہوں۔اس اعتبار سے اس یو ٹی خطہ کی منتخبہ موجودہ حکومت کاذکر کیا جائے تو محض ایک مہینہ گذر جانے کے دوران اس حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کسی ٹھوس رائے کا اظہار کیا جانا موثر اور درست ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ تاہم اس بات سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہاں کی موجودہ منتخبہ حکومت یہاں کے لوگوں کو درپیش مسائل سے بخوبی واقف ہے،اس لئے ان مسائل کو دور کرنا حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے انتہائی دانش مندانہ حکمت ِ عملی کی ضرورت ہے۔ جبکہ لوگوں کو درپیش مسائل کی مسلسل موجودگی پر عوام کاغم و غصہ اور شدید ردِ عمل کا اظہار حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے۔یہاں یہ بات کہنا بھی بالکل برحق ہے کہ وادی ٔ کشمیر کے لوگوں کو زندگی گذارنےکے لئےقدرت نے ایسےکئی وسائل سے مالا مال کررکھا تھا ،جن کی بدولت اُسے ہر وقت فیض حاصل ہوتا ۔اگر پینے کے پانی کے ذخائر کی ہی بات کریںتو نہ صرف کشمیری عوام کی ضروریات بغیر کسی خلل کے پورے ہوسکتے تھے بلکہ دوسراے خطے بھی ان سے فیض یاب ہوسکتے تھے۔اسی طرح پانی کے ذخائر کے بہتر استعمال سے بجلی کی بھی بہتات رہتی، لیکن بدقسمتی سے وقت وقت کے حاکموں کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں اور یہاں کے عوام کی خود غرضی و لاپرواہی سے وادیٔ کشمیر میں قدرت کے عطا کردہ یہ وسائل محدود و مسدود ہوکر رہ گئے ہیں۔جس کا خمیازہ اب یہاں کے لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہےاورگذشتہ ایک طویل عرصہ سے شہر اور دیہات میں لوگ سردیوں اور گرمیوںمیں پینے کے پانی اور بجلیکی عدم دستیابی کے شکار ہورہے ہیں۔الغرض لوگوں کو درپیش مسائل کے تئیں اگرچہ موجودہ منتخب حکومت کے وزیر اعلیٰ بذاتِ خود پُر عزم کوششوں میں مصروف دکھائی دیتے ہیں لیکن حکمران سیاسی پارٹی کے بعض اور اپوزیشن جماعت کے بیشتر لیڈر اور عہدیداران حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی کو موثر اور مثبت بنانے میں کوئی پیش رفت نہیں کررہے ہیںاور عوام کا اعتماد بحال کرنے کے بجائےسیاسی خود غرضی اور نجی مفادات کا روایتی طریقۂ کار نہیں بدل رہے ہیں۔جس کے نتیجے میں عام لوگوں میں سیاسی پارٹیوں کے خلاف بھی بد دِلی پیدا ہورہی ہےکیونکہ اپوزیشن پارٹیوں کے نا مناسب رول سے حکومت کے بیشتر شعبوں میں موجود غلط پالیسیوں کے مرتکب بعض اعلیٰ عہدیداروں اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث بیشتر آفیسرو اہلکاروںکی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ جس کے باعث ناجائز منافع خوری ،ملاوٹ خوری ،رشوت ستانی ،لوٹ کھسوٹ ،ہم سَری اورکام چوری میں کوئی فرق نہیں آرہی ہے۔تعجب ہے کہ حکومت بنانے،حکومت گرانے ،حکومت حاصل کرنے یا حکومت میں شامل ہونے کے لئے سب متفق دکھائی دیتے ہیں لیکن لوگوںکو درپیش مسائل دور کرنے کے لئے کوئی اتحاد نظر نہیں آرہا ہے۔