معاشرہ زوال پذیری کی جانب گامزن

2 hours ago 2

بے شک علم و تعلیم سے دوری اوراخلاقی انحطاط کسی بھی قوم یا معاشرے کے زوال کی بنیادی اور اہم ترین علامت ہوتی ہے اور جس کسی قوم یا معاشرے کےسیاسی ،سماجی ،فلاحی اورمذہبی تنظیموںکے رہنماو لیڈر د یانتداری، قابلیت اور قوم و معاشرے کی بھلائی کے جذبے سے محروم ہوتے ہیںاور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتےہیںتواُس قوم یا معاشرے کا زوال یقینی ہوتا ہے ۔اسی طرح جب کسی معاشرے کے زیادہ ترافراد میں سچائی، دیانت، امانت اور انصاف جیسے اخلاقی اقدار کی جگہ جھوٹ، فریب، بے ایمانی، بددیانتی اور ناانصافی لے لیتی ہے، تواُس معاشرے کی سماجی، سیاسی اور معاشرتی بنیادیںخود بخودہِل جاتی ہیںاور صورت ِ حال زوال کا باعث بن جاتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں معاشرےکےلوگوں کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا ہے،باہمی تعلقات کمزور ہو جاتے ہیں ، معاشرتی ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے،ملازمت تجارت بنتی ہے، کاروباری معاملات میں بددیانتی، دھوکہ دہی اور رشوت کا رجحان بڑھ جاتا ہے،حکومتی ڈھانچہ کمزورہوتا ہے،عوام کا سرکاری نظام پر اعتماد ختم ہوجاتاہے، معیشت تباہ ہو جاتی ہے ، ترقی کی رفتار رُک جاتی ہےاور قوم افرا تفری کا شکار ہوجاتی ہے۔اس صورت حال میںقوم یا معاشرے کی نوجوان نسل میںعلم و تعلیم سے دوری بڑھ جاتی ہے،حصول ِعلم کی جستجومعدوم ہوجاتی ہے،اُن میں بہترسوچ اورمثبت خیالات پروان نہیں چڑھتے،وہ جدید علوم ،ٹیکنالوجی و تحقیق کی طرف مائل نہیں ہوتےاورفکری طور پر جمود کا شکار ہوکرہر میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میںمعاشرہ کے افراد سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ رہ جاتے ہیں، ان کے پاس روزگار کے مواقع نہیں رہتے اور وہ غربت و پسماندگی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ اس صورت حال میںمعاشرے میں جہالت فروغ پاتی ہے، غلط فہمیاں ،حسداور تعصبات جنم لیتے ہیںاور لوگ عقل اور منطق کی بجائے انہی غلط فہمیوں اور تعصبات پر یقین کرنے لگتے ہیں،جو مستقبل میںقوم یا معاشرے کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔اس حوالے سے اگرہم اپنے کشمیری معاشرے کابغور جائزہ لیں تو کئی ایک صورتیں ہمارے معاشرے میںدکھائی دیتی ہیںجن کا مندرج بالا سطروںمیں تذکرہ کیا گیا ہےاور بدقسمتی سےآج بھی ہم اُنہیں بدستور نظر انداز کررہے ہیںاور خواب ِغفلت میں مگن ہوکرہر معاملے میں خست اور پست ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب کسی قوم یا معاشرے کو حالِ مست اور مالِ مست رہنے کی عادت پڑجاتی ہے تواس کی احساسِ جہت مٹ جاتی ہے۔وہ اپنے زوال اور اپنی بقاءکے مراحل کے مسئلے کو سمجھ نہیں پاتی اور نہ ہی گہرائی سے اس مسئلے پر غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔حالانکہ اُن کے لئےزوال کی وہ علامتیں بالکل چشم کُشا ہوتی ہیںجو اُنہیں اخلاقی ، سماجی ،اقتصادی ،سیاسی یادینی بحران کی شکل پیش آتی ہیںاور اُن کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔اس لئے ہمارے لئے یہ سمجھنا ضروری ہےکہ ایسے حالات میںاگر ہمارا معاشرہ صحیح سمت میں کی طرف گامزن ہونے اور حق پرستی پرعمل پیرا رہنے کی کوشش نہ کرتا توہمارے لئے کسی بھی بحرانی کیفیت یا زوال کی صورت ِحال سے نکل باہر آنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بن سکتا ہے۔ اگر آج بھی ہمارے قائدین اور حکمران دیانت داری سے اپنا بہترکردار ادا نہیںکرتے تو عوام کا اعتمادحکومتی نظام پر مزید متزلزل ہوتا رہے گاجو حکومتی ڈھانچے کو کمزور بناکےقوم کے لئے افراتفری کا باعث بن سکتا ہے۔اگرآج بھی تعلیمی اداروں میں اخلاقیات کی تعلیم پر زور نہیں دیا جاتا تو طلاب میں ایمانداری ،سچائی ، امانت اور حیاء جیسےاصول فروغ نہیں پائیں گے،جس سے نہ صرف ان کے کردار پر منفی اثرات پڑیں گے بلکہ مستقبل میںمعاشرےکی بربادی کے بھی سبب بن جائیںگے۔اگر آج بھی ہمارے سماجی اور دینی رہنامسلکی منافرت او رنجی مفادات کو بالائے طاق رکھ کرحق نوائی کے کام نہیںکرتےتو ہمارے بکھرا ہوا معاشرہ ہرگز متحد نہیں ہوسکتا بلکہ بدعنوان،کورپٹ اور بے انصاف نظام زندگی کا چلن دن بہ دن فروٖ غ پائے گااور ہماری زوال پذیر صورت حال آگے بڑھاتا چلاجائے گا ۔ الغرض ہمارے معاشرے کے ہر ذی ہوش فرد کو موجودہ صورت حال پر غور وفکر کرنا ہوگا اوراس صورت حال کو بدلنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article