مہاراشٹر اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کی مہم آخری مرحلہ میں ہے ، اس لئے وہاںمہم اس وقت زوروں پر ہے۔ پارٹیوں ، لیڈروں اور امیدواروں کیلئے ایک ایک لمحے بہت قیمتی ہیں ۔ ووٹوں کے حصول کیلئے سبھی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں،مثبت اورمنفی ہر طریقہ آزمایا جارہا ہے اورترکش کے سارے تیراس امید میں چھوڑے جارہے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تیر نشانہ پر لگ جائے اورمقصد حاصل ہوجائے۔ ایسے ایسے ایشوز اٹھائے جارہے ہیں، نعرے لگائے جارہے ہیں اور باتیں کہی جارہی ہیں ، جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا۔اس بات کی فکر کسی کو نہیں ہے کہ ایسی منفی انتخابی مہم کا سماج اورسیاست پر کیا اثر پڑے گا؟ اورملک وشہریوں کو کیا نقصان اٹھانا پڑے گا؟ انتخابات کے دوران ووٹوں کا اس قدر پولرائزیشن کیا جارہاہے کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی ۔لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں ، بلکہ کچھ لوگ کہہ بھی رہے ہیں کہ آخر یہ ملک کدھر جارہاہے ؟اورانتخابات کے نام پر کیاکیا ہورہاہے ۔جس طرح کی انتخابی مہم چلائی جارہی ہے ، اس کے اشاروں ، کنایوں ،مقاصد اورنقصانات کو ہر کوئی سمجھ رہاہے اور محسوس بھی کررہاہے ۔ لیڈران آئے دن حدود کو پارکرتے جارہے ہیں۔حیرت کی بات ہے کہ ووٹر بھی صرف تماشا دیکھ رہاہے اورالیکشن کمیشن بھی خاموش ہے ۔ایسا تونہیں کہہ سکتے کہ الیکشن کمیشن سمجھ نہیں رہاہے ، بلکہ وہ نظرانداز کررہاہے ۔ الیکشن کمیشن کی خاموشی کی وجہ سے ایک طرح سے فرقہ وارانہ انتخابی مہم کی گنجائش نکال لی گئی ہے ۔جو باتیں آج اشاروں میں کہی جارہی ہیں ، ہوسکتاہے کہ وہ کل کھل کر کہی جانے لگیں گی اورووٹ کیلئے سماج کو تقسیم کرکے لڑا جائے گا ۔حالات اسی طرف جارہے ہیں۔انتظامی مشینری خاموش ہے اوراس کا فائدہ اٹھاکر انتخابی مہم بے لگام ہوتی جارہی ہے ۔سوال یہ ہے کہ اگر اس طرح کی منفی انتخابی مہم انتخابی ضابطہ اخلاق کے دائرے میں نہیں آئیں گی ، توکون سی باتیں آئیں گی ؟اور الیکشن کمیشن ان پر کب حرکت میں آئے گا؟
سیاسی پارٹیوں اورلیڈروں کے درمیان لفظی جنگ کی بات سمجھ میں آتی ہے ، اس کو کسی حد تک نظر انداز بھی کیا جاسکتاہے ، لیکن ووٹوں کے پولرائزیشن اورسماج میں پھوٹ ڈالنے ، ان میں ایک دوسرے کے خلاف زہربھرنے اور ان کو آپس میں لڑانے کیلئے ماحول تیارکرنے کی باتیں سمجھ سے باہر ہیں ۔سیاسی پارٹیاں اور لیڈران اپنے طورپر منفی انتخابی مہم چلاہی رہے ہیں ، مذہبی رہنما جن کو اس سے دور رہنا چاہئے، وہ بھی اپنے بیانات اورسرگرمیوں سے آگ میںگھی ڈالنے کا کام کررہے ہیں۔ جب سے جھارکھنڈ اورمہاراشٹر اسمبلی انتخابات کی مہم شروع ہوئی ہے ، لیڈروں اورمذہبی رہنمائوں کے کتنے نفرت انگیز و قابل اعتراض بیانات اورنعرے آگئے،کچھ کی شکایتیں الیکشن کمیشن تک پہنچیں اورکچھ کی نہیں پہنچیں ۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے بھی ان کے خلاف کوئی ایسی سخت کارروائی نہیں کی گئی ، جو سبھی کیلئے عبرت بنے، جس کی وجہ سے ہردن لیڈروں اورمذہبی رہنمائوں کے منھ سے نئی نئی قابل اعتراض باتیں سننے کوملتی ہیں اور پرانی قابل اعتراض باتوں پر بحث ہوتی رہتی ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کا انتخابی منشور دکھاوا بن گیا ، ان میں مذکورہ باتوں اوروعدوں پر کوئی انتخابی تقریر نہیں ہوتی ہے ۔انتخابی وعدے بھی ایسے کئے جاتے ہیں، جو پورے نہیں ہوتے۔ عوام کے جوایشوز ہیں اوروہ جن مسائل کا سامنا کررہے ہیں ۔ ان پرتو بات ہی نہیں ہوتی اورنہ ہی ان کا حل بتایا جاتاہے ۔ صرف لوگوں کو لڑانے کی باتیں ہورہی ہیں، ان کو سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہاہے، بلکہ آپس میں الجھنے کا ماحول بنایا جارہاہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوگوں کو لڑاکر ان کا ووٹ حاصل کیا جاسکتا ہے؟ کیاملک میں انتخابات کرانے کا یہی مقصد ہے ؟ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سے ملک کوکیا فائدہ ہوگا؟ سیاسی لیڈروں کی باتیں اورنعرے سب کے سامنے ہیں اوران پر بحث اس طرح ہورہی ہے کہ کوئی انہیںووٹنگ کے وقت ہی کیا ، اس کے بعد بھی بھول نہیں سکتا، کیونکہ ان قابل اعتراض باتوں اورنعروں کے ذریعہ ایک طرح سے سماج میں نفرت کابیج بویا جارہاہے ، جس کی فصل آگے بھی کاٹی جائے گی۔مقصد بھی یہی ہے کہ سماج کو بھڑکانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑا جائے اوراس وقت الیکشن کا پورا استعمال اس مقصد کیلئے کیا جارہاہے ، جو تشویش ناک ہے اور ان پر سنجیدگی سے غوروفکر اورقدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS