ڈونالڈ ٹرمپ کے دورِ ماضی کی کچھ یادیں

2 days ago 1

November 18, 2024

مسعود محبوب خان

ٹرمپ کے دور میں سب سے بڑا اور اہم فیصلہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا تھا۔ یروشلم، مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں مذاہب کے لیے مقدس شہر ہے۔ مسلمانوں کے لیے یہ شہر اس لیے اہم ہے کیونکہ یہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے، جو مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ اس فیصلے نے مسلم دنیا میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑا دی، کیونکہ اس سے فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی خودمختاری کو نظر انداز کیا گیا۔ فلسطینیوں کے نزدیک یروشلم (خاص طور پر اس کا مشرقی حصّہ) ان کے مستقبل کے آزاد ریاست کے دارالحکومت کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا اور اسے اپنا دارالحکومت قرار دیا۔ اس تنازعے میں امریکہ کا یہ فیصلہ اسرائیل کے حق میں جانبداری کا اظہار سمجھا گیا اور اس نے فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کو مزید نظر انداز کیا۔

امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا ٹرمپ کے یروشلم کے فیصلے کا ایک بڑا عملی اقدام تھا۔ 14 مئی 2018ء کو سفارت خانے کی منتقلی کے دن، غزہ میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے جن میں اسرائیلی افواج نے کارروائی کی اور درجنوں فلسطینی ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج اور مسلم دنیا میں امریکہ کے کردار پر مزید سوالات کھڑے کر دیے۔ اس اقدام کی بین الاقوامی سطح پر بھی مخالفت کی گئی۔ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میں اس فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کی گئی جس میں 128 ممالک نے امریکہ کے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ اس قرارداد نے واضح کر دیا کہ عالمی برادری یروشلم کی حیثیت پر امریکہ کے یکطرفہ اقدام کو تسلیم نہیں کرتی۔

ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطین ۔اسرائیل تنازعے کے حل کے لیے ’’صدی کا معاہدہ‘‘ یا ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے نام سے ایک منصوبہ پیش کیا، جس کا مقصد فلسطینی علاقوں کو مستقل طور پر تقسیم کر دینا اور فلسطین کے مخصوص حصّوں پر اسرائیلی قبضے کو قانونی حیثیت دینا تھا۔ اس معاہدے کو فلسطینی رہنماؤں اور عوام نے مکمل طور پر مسترد کر دیا، کیونکہ اس میں فلسطینیوں کے خود مختار ریاست کے حق اور یروشلم کی حیثیت کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کے محدود علاقے میں خود مختاری دی جاتی، لیکن اسرائیل کو ان علاقوں پر سکیورٹی اور دیگر معاملات پر کنٹرول برقرار رہتا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو ’’غیر منصفانہ‘ ‘اور ’’یکطرفہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے حقوق کو ختم کرنے کی کوشش ہے اور اسرائیل کے قبضے کو قانونی حیثیت دینے کا ذریعہ ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے مسلم ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی بھی کوشش کی، جسے ابراہیم معاہدے (Abraham Accords) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے، جسے امریکہ نے اپنے کامیاب سفارتی اقدام کے طور پر پیش کیا۔ تاہم فلسطینی قیادت اور عوام نے ان معاہدوں کو ان کے حقوق اور جدوجہد کو کمزور کرنے کی کوشش سمجھا۔ ان معاہدوں کے نتیجے میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے والے مسلم ممالک پر مسلم دنیا میں مختلف ردعمل دیکھنے میں آیا۔ بعض ممالک میں عوامی سطح پر احتجاج ہوا، جب کہ کچھ ممالک نے اسے فلسطینی کاز کے ساتھ غداری کے مترادف سمجھا۔ ان معاہدوں نے فلسطینی عوام کو مایوس اور بدظن کیا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ان معاہدوں سے اسرائیل پر دباؤ ختم ہوگیا اور فلسطینی مسئلے کو نظر انداز کیا گیا۔

ٹرمپ کی فلسطین۔اسرائیل پالیسی پر عالم اسلام نے شدید ردّعمل کا اظہار کیا۔ مسلم ممالک نے ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور سفارت خانے کی منتقلی کو ’’مسلم امہ‘‘ کے خلاف سازش قرار دیا۔ اس حوالے سے ترکی، ایران اور پاکستان جیسے ممالک نے کھل کر مخالفت کی۔ اس فیصلے نے مسلم دنیا میں غصّے کی لہر دوڑا دی اور امریکہ کے خلاف جذبات کو مزید بڑھا دیا۔ اسلامی ممالک کے سربراہی اجلاس (او آئی سی) میں ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی گئی اور فلسطین کے حقوق کے لیے کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ ترکی نے اس مسئلے پر مضبوط موقف اختیار کیا اور مختلف مواقع پر اسرائیل کے خلاف بیانات دیے۔ ایران نے بھی ٹرمپ کی پالیسیوں کو مسلم دنیا کے خلاف سازش قرار دیا اور فلسطینی جدوجہد کی حمایت جاری رکھی۔

ٹرمپ کی فلسطین ۔اسرائیل پالیسی نے خطے میں امن کی کوششوں کو مزید مشکل بنا دیا۔ اس پالیسی نے فلسطینیوں کے اندر مزاحمت کی نئی لہر کو جنم دیا اور اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت موقف اپنانے کی ضرورت کو تقویت دی۔ اس کے علاؤہ اس پالیسی نے مسلم ممالک میں امریکہ کے کردار کو متنازع بنا دیا اور امریکہ کو فلسطینی مسئلے کے حوالے سے غیر جانبدار ثالث کے طور پر دیکھنے کا امکان ختم کر دیا۔ ان اقدامات نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تعلقات کو مزید پیچیدہ اور غیر یقینی بنا دیا اور امن کے امکانات کو محدود کر دیا۔ اس کے علاؤہ، فلسطینی قیادت نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’امریکی جانبداری‘‘ قرار دیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ازسرنو ترتیب دینے کا مطالبہ کیا۔

ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015ء میں کیے گئے جوہری معاہدے (Joint Comprehensive Plan of Action) سے امریکہ کو باہر نکال کر ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کیں۔ اس نے خلیجی خطے میں مزید کشیدگی اور ایران کی مخالفت میں اضافہ کیا، جس سے خطے میں شیعہ ۔سنی تقسیم مزید گہری ہوگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ تعلقات پر پالیسی نے مشرق وسطیٰ میں خاصی کشیدگی پیدا کی اور خطے میں نئے چیلنجز کو جنم دیا۔ ایران کے ساتھ کیے گئے 2015ء کے جوہری معاہدے سے امریکہ کا یکطرفہ طور پر نکلنا اور اس کے بعد ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ نہ صرف ایران کے لیے اقتصادی مسائل کا باعث بنا بلکہ خطے میں عدم استحکام اور فرقہ وارانہ تقسیم کو بھی بڑھاوا دیا۔

2015ء میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں (برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین) نے ایران کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدہ کیا، جسے (JCPOA) یا عام زبان میں

’’ایران جوہری معاہدہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا اور اس کے بدلے میں اس پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹانا تھا۔ اس کے تحت ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کرنے پر اتفاق کیا اور عالمی طاقتوں نے اس پر اقتصادی پابندیاں نرم کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم 2018ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر جوہری معاہدے کے شرائط پوری نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ ’’ایک طرفہ‘‘ اور ’’غیر مناسب ‘‘تھا اور ایران کے میزائل پروگرام اور خطے میں اس کی مداخلت پر قابو نہیں پا سکا۔ ٹرمپ نے معاہدے کو ’’بہت خراب‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ایران کو طاقتور بنا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے خطرہ ہے۔

جوہری معاہدے سے علیحدگی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ’’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی اپنائی، جس کے تحت ایران پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں۔تاکہ وہ اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو روک دے اور خطے میں اپنی عسکری سرگرمیاں کم کرے۔ ان پابندیوں کا ایران کی معیشت پر گہرا اثر پڑا، ایرانی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، جس نے ایرانی عوام کی زندگیوں کو بھی مشکل بنا دیا۔۔۔(جاری)
رابطہ۔09422724040
[email protected]

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article