November 18, 2024
عبداللطیف تانتر ے
قولِ صادق ہے کہ ہر بچہ فطرتِ سلیم پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اُسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔ آج تک کی گئی تمام تر تحقیق جو بچوں کی کُلہم ترقی کے لئے محرکات سے متعلق سرانجام پائی ہے، یہی بات باور کراتی نظر آرہی ہے کہ بچے پرورش کے حساب سے ہی اپنی کارکردگی دِکھاتے ہیں۔ درج بالا سطور کے تناظر میں بچوں کی بہتر یا ناقص کارکردگی خالصتاً پروش دہندگان کے تربیتی اسلوب پر منحصر ہے۔ بچوں کے پرورش دہندگان میں بنیادی اِکائی اُن کے والدین ہیں اور ثانوی اکائیاں جیسے مدرسہ اور سماج بھی بچوں کی کارکردگی کو بہت حد تک متاثر کرتے ہیں تاہم ان اکائیوں کا تعین بھی پہلی اکائی کے حدِ اختیار میں آتا ہے۔ جیسے ایک نومولود فطرت سلیم سے ودیعت ہوتا ہے ویسے ہی والدین کا پچوں کے تئیں بہترین تربیت کا خواہاں ہونا ایک فطری عمل ہےلیکن اسکے باوجود بھی آج کے ترقی یافتہ دور میں بچوں کی اکثریت اپنی خداداد صلاحیتوں کا مظہربنتی نظر نہیں آرہی ہے جبکہ ماضی قریب وبعیدکے مقابلے میں آج کے بچوں کو کافی زیادہ مماثل اور فعال وسائل دستیاب ہیں۔ ماضی میں تربیت کے وسائل کی قلت کے باوجود اسلوب تربیت پر لوگ نازاں تھے اور آج کا اسلوب تربیت ہی اس دور کےلئے لمحہ فکریہ بن چکا ہے۔ اسکی سب سے اہم وجہ یہ ہےکہ تربیت دہندگان نے اسلوب تربیت کی ترجیحات میں پھیر بدل کیاہے۔ آج کی پرورش کا محور و مقصد حصول دنیا کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس نہج پر چل کر مادہ پرستی نے پورے عالم کو اپنی گرف میں لپیٹ لیا ہے۔
عالمی تناظر میں یہ مسئلہ اس وقت بامِ عروج پر ہے۔ بظاہرآج کی ترقی یافتہ دنیا کے لوگ مادی وسائل کی فراوانی سے سرشار ہیں اور ان کی نسلوں کو دنیا داری کی تمام تر آسائشیں بہم ہیں تاہم وہاں کی پرورش یافتہ اور زیر پرورش نسلیں مادی دنیا کی حصول یابی کو اپنا مقصدِ حیات بناچکی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگ خاندانی نظام کے فقدان، اخلاقی اور سماجی اقدار کی پستی کے سبب نفسیاتی طور مفلوج ہوتے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ رجحان ترقی پذیر دنیا پر بھی مسلط ہوتا جارہا ہے اور یہاں اس کو والہانہ قبولیت بھی مل رہی ہے۔ اس پیچیدہ اور سنگین بحران سے بچنے کیلئے جہاں دنیا کی ساری موجودہ تہذیبیں اپنے اپنے ادیانی فلسفوں کی طرف رجوع کرتی نظر آ رہی ہیں وہیں دین اسلام میں موجود فلسفہ تربیت کی طرف رجوع کر نا ناگزیر بن چکا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں یہ بات روزروش کی طرح عیاں ہے کہ تربیت کا اسلوب نوعِ انسانی کی ایسی پود تیار کرنا ہے جو خلق کو خالق کی خوشنودی کیلئےراحت و تسکین فراہم کرے۔ اگرچہ دنیا میں موجود باقی تہذیبیں اسلوبِ تربیت کے اسلامی اصول کی پابند نہیں لیکن مسلمان معاشرے کو اپنی شانِ رفتہ بحال رکھنے کے لئے مادہ پرستی پر مبنی تربیت کے تمام تر اصولوں سے بیزار ہو کر اسلوبِ تربیت کا اسلامی اصول اپناکر اپنے معاشرے کے ساتھ ساتھ پوری عالم ِ انسانیت کے لئے دائمی اور ابدی تربیت کا نمونہ پیش کرنا چاہئے۔ اسلامی تربیتی نصاب انسانی شخصیت میں بگاڑ کے تین بڑے اسباب کی نشاندہی کرتا ہےاور یہ تینوں یعنی نفس، شیطان اور منافقین، انسان کو بھلائی سے روکتے ہیں اور برائی کی رغبت دلاتے ہیں اور یہی نصاب انسان کو متذکرہ شر سے بچنے کی سبیل بھی پیش کرتا ہے۔ ان اسبابِ شر سے بچنے کے لئے انسان کو اپنے اندر ودیعت کئے گئےداعئ حق کو پہچاننا ہوگااور اپنا ربط ایسے لوگوں سے بڑھانا ہوگا جو ایمان سے سرشار بھلائی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے ہوں۔ اگر آج کے اس بگڑتے ہوئے جدید معاشرے کو مزید بگاڑ سے بچنا ہے تو یہ اسلوبِ تربیت ہی بچاؤ کی صورت پیدا کرسکتا ہے کیونکہ یہی وہ لائحہ عمل ہے جس سے انسان کی فطرت سلیم کی حفاظت ممکن ہے اور اگر تربیت دہندگان اس امر پر کامل یقین کے ساتھ عامل ہوجاتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب اس نہج پرپرورش پانے والی نسلیں اخروی کامرانی کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقی کے ایسے منازل طے کرینگی جس کا تصور آج کی ترقی یافتہ دنیا کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا۔
رابطہ۔7006174615