! اُتارچڑھاؤ زندگی کا ایک اہم حصّہ

2 hours ago 1

October 9, 2024

فکروفہم

حمیرا فاروق ۔ شوپیان

انسانی زندگی کو ہر دور میں نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ تا دم چلتا رہے گا ۔کیونکہ دنیا جس کا مطلب ہی ہے بدلنا یہاں ہر وقت ہر شٔے ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہو جاتی ہے ۔جہاں انسان کو غموں نے گھیر لیا ہوگا وہی دوسری طرف خوشیوں کے چرچے اس کی منتظر ہوتی ہے ۔ جہاں وہ اداسی کے لبادے میں ملبوس ہوگا وہاں مسرت کا جام بھی مہیا ہو جاتا ہے ۔اس لیے انسان کو ہر حال میں نادم اور شاکر بندہ ہو کر رہنا چاہیے۔ پھر چاہے وہ غربت کی حالت میں ہو یا شہنشاہی میں ،صحت مند ہو یا مریض۔یہ چیزیں دستور حیات میں شامل ہے ۔لہٰذا اس کو دستورِ شیوہ نہ بنائے ۔انسان کو ہر وقت زندگی کی شکوہ شکایتیں ، اپنی قسمت پر رونا باعث مصیبت بنا کے رکھ دیتا ہے ۔وہ انسان ہمیشہ پریشان رہتا ہے دراصل یہ اس کے ضعیف الایمان ہونے کی نشانی ہے ۔ایمان و ایقان اگر اس کے اندر ہوتا تو وہ ہر حال میں راضی ہوتا۔ جو انسان اپنی قسمت پر ہمیشہ لعن و طعن کرتا رہتا ہے پھر اس کے پاس اگرچہ ساری نعمتیں موجود ہو بھی لیکن عادتاً وہ رب کا ناشکرا رہتا ہے ۔ انسان کبھی عقل سے یہ کام نہیں لیتا ہے کہ اللہ نے انسانوں کو مشقت میں پیدا کیا ہے ۔ وہ یہاں چین و راحت سے لبریز نہیں رہ سکتا، یہ پریشانیاں اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے، کوئی انسان اس کے بغیر رہ نہیں سکتا ۔انسان کو سکھ ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ اُتارچڑھاؤ زندگی کا ایک حصّہ ہے جس سے ہر ایک کو گزرنا پڑتا ہیں ۔یہاں نہ شہنشاہ کی شہنشاہی رہنے والی ہے اور نہ فقیر کی فقیری۔ یہاں بس بقاء رب کی ذات کو حاصل ہیں ۔وہ ایک ناکارہ اور بے عقل انسان ہے جس نے آج تک اپنے وجود پر غور و فکر نہیں کیا کہ آخر میں میرا وجود بخشنے والا ہے کون ؟مجھے دنیا میں لایا گیا تو کس لیے ؟ میرا وجود تھا ہی نہیں تو مجھے وجود کس نے بخشا ؟ اگر یہ تمام سوالات انسان کے ذہن میں اُبھر آتے تو آج لوگ ہر سمت آفت کے شکار نہ ہوتے ۔ مخلوق کے در پر خود کی تذلیل نہیں کرتے ۔اگر انسان کے اندر خودی کی کمی نہ ہوتی تو ایسے حالات اس کے روبرو پیش نہیں آتے ۔ کیونکہ خودداری سے انسان کو معرفت نفس ہو جاتی ہے اور اگر اس کی کمی ہو تو انسان کے اندر رزیلہ خصائل پروان چڑھ جاتی ہیں ۔خوداری ویران بستیوں کو آباد کر دیتی ہے ۔ یہ انسان کو عزت نفس اور دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے پرہیز کرنا سکھاتی ہے ۔ انسان کو مفلوک الحالی سے نکال کر ترقی کی اور رہنمائی کرتی ہے ۔جس کو علامہ اقبال نے نہایت ہی دلکش پیرائے میں بیان فرمایا ۔ وہ اصل میں انسان کو نیابت الٰہی کے منصب پر دیکھنے کے خواہاں تھے ۔ انہوں نے خودداری کے لیے تین چیزیں بتائی جس میں پہلی چیز اطاعت دوسری ضبط نفس اور نیابت الٰہی قرار دی ۔جب انسان کے اندر یہ تین چیزیں آتی ہیں ۔بالخصوص ضبط نفس جب قابو میں آجائے تو انسان ایک کامیاب بندہ ہو کر زندگی گزار لیتا ہے جہاں بندے کی ہر تمنا پوری ہونے لگتی ہے اور اللہ کو اس بندے کی ہر ادا پسند ہو جاتی ہے اس کی نظر اللہ کی نظر بن جاتی ہے۔ وہ چیزوں کی ابھی تمنا ہی کر رہا ہوتا ہے تو رب اس پہ کُن کہہ دیتے ہیں ۔ جس کو علامہ اقبال ؔنے ایک شعر کے ذریعے بیان کیا ہے۔ ؎

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article