اسد مرزا
ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی کی نئی رہنما کے طور پر Kemi Badenoch کے انتخاب نے نہ صرف عام عوام بلکہ سخت گیر ٹوریز کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اسے پارٹی کی قسمت کو بحال کرنے کے لیے ٹوریز کی آخری کوششوں کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔
گزشتہ ہفتے، برطانیہ کی عفت یافتہ کنزرویٹو پارٹی، جسے اس سال کے شروع میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی سب سے بڑی شکست اور ہاؤس آف کامنز میں نشستوں کی سب سے کم تعداد کا سامنا کرنا پڑا، اس نے Badenoch Kemi کو اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیا۔
یہ ٹوریز کی جانب سے دائیں بازو کی حمایت کرنے والے شخص کی تلاش کی نشاندہی کرتا ہے، جس نے انتخابی شکست کے بعد اپنی ساکھ کو دوبارہ بنانے کے لیے شناخت کی سیاست، ٹرانس جینڈر کے حقوق، اور ریاستی اخراجات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے۔ بیڈینوک نے رابرٹ جینرک کو پارٹی کے ممبران کی بڑی تعداد کی حمایت حاصل کرکے شکست دی۔ کئی مہینوں تک جاری رہنے والے اس مقابلے کے بعد رشی سنک کی جگہ بیڈینوک کو پارٹی کانیا سربراہ مقرر کیا گیا۔ وہ برطانیہ کی سب سے پرانی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں، اور ٹوریز اسے لیبر کے مقابلے میں ایک متنوع اور جامع پہل کے طور پر قرار دے رہے ہیں، کیونکہ لیبرل پارٹی کی قیادت اب تک صرف سفید فام مرد کرتے رہے ہیں۔لیکن پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ان کا انتخاب اگلے کئی سالوں میں برطانیہ کی سیاست میں دائیں بازو کی جانب تبدیلی کے جھکاؤ کو یقینی بناسکتا ہے، اور نئے اپوزیشن لیڈر اور لیبر کے سنجیدہ اور سیدھے وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ ان کے تعلقات آپسی تصادم کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
پارٹی کا انتخاب جیتنے کے بعد، بیڈینوک نے ٹوری پارٹی کے حامیوں کے سامنے آنے والے کاموں کا خاکہ پیش کیا۔ اول لیبر حکومت کا احتساب کرنا اور ’واضح منصوبہ‘ کے ساتھ حکومت میں دوبارہ لوٹنے کی تیاری کرنا۔بیڈینوک نے مزید کہا کہ کنزرویٹو پارٹی کو ایماندار ہونے کی ضرورت ہے،اس حقیقت کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم نے کیا غلطیاں کیں اور اس کا ایماندارانہ احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے معیار کوکیوں گرنے دیا۔ مجموعی طور پر کنزرویٹو کے اصل مسائل تھے، موجودہ سیاسی منظر نامہ سے پارٹی کی گرفت کھونا، عوامی غصے میں اضافہ اور معیشت کو فروغ نہ دے پانا، جرائم اور امیگریشن کا بڑھنا اور عوامی زندگی میں گرتے ہوئے معیارات۔اس کے ساتھ ہی BoJo اور Liz Truss کے دورِ اقتدارمیں عوام کے غصے کا سامنا نہ کرپانا بھی ایک بڑی وجہ رہی۔کیونکہ ان دونوں کو Brexit کے بعد برطانیہ کی تعمیر نو کے ایک مشکل کام کی ذمہ داری دی گئی تھی، اور یہ دونوں ہی ساتھ ہی رشی سنک بھی یہ کام ٹھیک سے انجام نہیں دے پائے۔ بیڈینوک جسے اکثر تصادم سے لطف اندوز ہونے والی خاتون کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انھیں قیادت کے لیے اپنی پارٹی کے ایسے قانون سازوں کی خاموش حمایت حاصل تھی جو کہ کنزرویٹو پارٹی کو دائیں جانب کی سیاست اپنانے پر زور دیتے آرہے ہیںاور انھوں نے بہت سے موضوعات پر امریکی طرز کی ثقافتی جھڑپوں کا طریقہ کار بھی اختیار کیا، جس سے کہ کنزرویٹو پارٹی کے نچلی سطح کے اراکین ان سے زیادہ متاثر ہوئے۔کیونکہ وہ بھی عملاً دائیں بازو کی سیاست میں زیادہ یقین رکھنے لگے ہیں۔اور یہ ایک ایسا سیاسی عمل ہے کہ جب بھی کسی ملک میں حکومت معیشت کو سنبھال نہیں پاتی ہے اور عوام کو فریب دینا چاہتی ہے تووہ دائیں بازو کی سیاست کو فروغ دینے لگتے ہیں اور جسے عام آدمی پسند کرتا ہے۔کیونکہ اس فریب میں دائیں بازوکے ساتھ ساتھ حب الوطنی کا پیغام بھی دیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بیڈینوک کا موازنہ اکثر مارگریٹ تھیچر سے بھی کیا جاتا رہا ہے اور انھوں نے خود کہا ہے کہ وہ تھیچر کی “خود انحصاری، ذاتی ذمہ داری اور آزاد منڈیوں کی قدروں” کو صحیح مانتی ہیں۔آئرن لیڈی کی طرح، بیڈینوک کو نڈر اور جنگجو بتایا جاتا ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ قدامت پسندی بحران کا شکار ہے اور یہ کہ ان کی پارٹی کو اپنے اصولوں اور اقدار کو نظر انداز کرنے کے بعد ’واپس ٹریک پر‘ آنا چاہیے۔ پھر بھی، ان دونوں کے درمیان موازنہ کافی متزلزل لگتا ہے۔
چارلس واکر، ایک سابق کنزرویٹو قانون ساز، جنہوں نے دلچسپی کے ساتھ بیڈینوک کے سیاسی عروج کی پیروی کی ہے، کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ نئی تھیچر ہیں۔ ’یہ صرف مضبوط خیالات رکھنے کے بارے میں نہیں ہے۔ مارگریٹ تھیچر نے اپنے خیالات کو فکری طور پر مضبوط کیا تھا اور وہ باعمل بھی تھیں۔‘جبکہ بیڈینوک نے ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں کیا ہے۔ نیل فرگوسن، ہوور انسٹی ٹیوشن، سٹینفورڈ یونیورسٹی میں سینئر فیلو اور بلومبرگ اوپینین کے کالم نگار کا خیال ہے کہ تھیچر کی طرح بیڈینوک بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں اور پیشہ ور والدینکی بیٹی ہیں۔ تھیچر کی طرح، انھوں نے بھی یونیورسٹی میں ایک مشکل مضمون(کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ) کا مطالعہ کیا اور نجی شعبے کی حقیقی دنیا کا تجربہ کرنے کے بعد سیاسی زندگی میں قدم رکھا اوراپنے تجربات کی بنیاد پر اپنا سیاسی کیریئر آگے بڑھایا اور محض 10 سال کے عرصے میں ہی وہ کونسلر سے ایم پی بن گئیں۔فرگوسن کا مزید کہنا ہے کہ میرے نقطہ نظر سے سب سے بہتر ان کا تاریخ کا احساس ہے۔ ان کتابوں میں سے ایک جس نے ان کی سوچ کو متاثر کیا ہے ،وہ ہے ڈارون ایسیموگلو اور جم رابنسن کی وائی نیشنز فیل (Why Nations Fail)، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ 18ویں اور 19ویں صدی میں برطانیہ کا شاندار عروج آئینی رکاوٹوں اور قانون کی حکمرانی کی وجہ سے زیادہ ہے جیسا کہ اس نے کہاکہ نوآبادیات یا سفید سامراج یا استحقاق پر انحصار کرتا تھا۔ یہ نہ صرف برطانیہ کے ماضی کے بارے میں، بلکہ اس کے مستقبل کے بارے میں بھی ایک بنیادی دلیل ہے، جس کے مطابق برطانیہ تبھی خوشحال ہو گا جب ہم اپنی حکومت کو ان اصولوں کی طرف لوٹائیں گے جو بیڈینوک کو عزیز ہیں۔
مائیکل مرفی – لندن میں مقیم صحافی، ڈیلی ٹیلی گراف کے لیے لکھتے ہوئے رائے دیتے ہیں کہ تھیچر سے موازنہ ان کے ظاہر سے زیادہ مبہم ہوسکتا ہے۔ تھیچر ’وقت کی حد سے زیادہ پابندی‘اور تفصیل پر محتاط توجہ کے لیے جانی جاتی تھیں،جبکہ بیڈینوک مبینہ طور پر اکثر سرکاری میٹنگوں میں دیر سے پہنچتی ہیںاور وزارتی بریفنگ پڑھنے میں عدم دلچسپی رکھتی ہیں۔ یہ خصلتیں مستقبل میں کسی اہم سیاسی موڑ پر، ا نھیں خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ کنزرویٹو کی مسز تھیچر کے متبادل کی خواہش ہمیشہ برقرار رہی ہے اور کئی دہائیوں کے بعد،بیڈینوک کا پارٹی کی رہنما منتخب ہونے کے پیچھے انھی خواہشات اور خیالات کا اظہار نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود بیڈینوک نے اپنی قدامت پسندی کا برانڈ تیار کیا ہے جو زمانے کے مطابق ہے۔ مرفی نے مزید کہا کہ لیبر کی گرتی ہوئی مقبولیت بیڈینوک کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے۔دریں اثنا، Badenoch کو JK Rowling جیسے لوگوں کی طرف سے خواتین کے حقوق کے لیے کھڑے ہونے میں ان کے ’دماغ اور بہادری‘کی بنیاد پر حمایت بھی حاصل ہوئی ہے۔ ہیری پوٹر کی مصنفہ اور مسز بیڈینوک دونوں نے صنفی نظریے کی کھل کر مخالفت کی ہے، بعد میں اپنی قیادت کی مہم کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ بچہ ٹرانس نہیں ہوتا ہے وہ صرف لڑکا یا لڑکی ہی ہوسکتا ہے۔ جس طریقے سے بیڈینوک کا کنزرویٹو رہنما کے طور پرانتخاب عمل میں آیا ہے اس سے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ بیڈینوک کنزرویٹو پارٹی کو بالکل ہی نئے طریقے سے ایک نئی سوچ کے ساتھ ایک نئی شکل دی سکتی ہیں جس سے کہ اس کی حالیہ شکستوں کو بھلانے میں مدد مل سکتی ہے۔ بیڈینوک کی موجودہ حکمت عملی نہ صرف اپنی پارٹی میں تبدیلی چاہتی ہے بلکہ اس میں لیبر پارٹی کے اراکین کو کنزرویٹوپارٹی میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ دائیں بازو کی پاپولسٹ ریفارم یو کے پارٹی بھی ہے جس کی قیادت تجربہ کار بریگزٹ مہم چلانے والے نائجل فاریج کر تے ہیں، جس کی اپیل نے جولائی کے انتخابات میں روایتی کنزرویٹو ووٹروں کو اپنے مقصد کی طرف راغب کیا۔ لیکن 44 سالہ بیڈینوک کے تحت بائیں جانب جھکاؤوالے اور زیادہ اعتدال پسند گروپ کو کنزرویٹو پارٹی سے الگ کر سکتا ہے۔تاہم وہ کہتی ہیں کہ سابق وزرائے اعظم جیسے سنک اور بورس جانسن کی انتظامیہ نے ان اصولوں کو ایک ایسے نقطہ نظر کے حق میں چھوڑ دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ پارٹی کہتی کچھ اور ہے اور کرتی کچھ اور ہے۔ جس کی وجہ سے اکثر کنزرویٹو حمایتی اراکان پارٹی سے بدظن ہوتے جارہے تھے۔ بیڈینوک کو اپنے منفی تبصروں پر شدید ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے جیسے کہ جب انہوں نے کہا تھا کہ 5سے 10 فیصد سرکاری ملازمین کام چور ہیں۔ یاان کا یہ تبصرہ کہ زچگی کی چھٹیوں کے دوران خواتین کو بہت زیادہ تنخواہ ملتی ہے اور لوگوں کو زیادہ ذاتی ذمہ داری کا استعمال کرنا چاہئے،نے بھی ان کے لیے مشکلیں پیدا کیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اس طرح کے خیالات کو ایک مسئلہ کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، لیکن بیڈینوک اپنی سیدھی بات چیت کو ایک اثاثہ کے طور پر دیکھتی ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ وہ عام سیاست دانوں سے مختلف نظریہ اپناتی ہیں اور اسی کی وجہ سے وہ اب تک کامیاب ہوئی ہیں اور انھوں نے وہ حاصل کیا جو وہ حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ اور اب ان کا ہدف ایک مرتبہ پھر کنزرویٹو پارٹی کو برسراقتدار لانا رہے گا۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS