پروفیسر عتیق احمدفاروقی
عدالت عظمیٰ کے ذریعہ گزشتہ چہارشنبہ کو بلڈوزر کارروائی کی حدود کا تعین کرنا ایک عاقبت اندیش فیصلہ ماناجائے گا۔ عدالت نے واضح کردیاہے کہ کسی جائیداد کو صرف اس لئے نہیں نقصان پہنچایا جاسکتاکیونکہ اس کامالک مبینہ ملزم ہے۔ ساتھ ہی عدالت نے نقطہ بانقطہ رہنماہدایات جاری کرکے ایسے معاملوں کی آئینی پوزیشن واضح کردی ہے۔ دراصل گزشتہ چندماہ کئی ریاستی حکومتوں پر یہ الزام لگایاجارہاتھا کہ ایسی کارروائیوں میں جانبدارانہ رویہ اپنایاجارہاہے جس سے انصاف کا بنیادی تصور پامال ہورہاتھا۔ حالانکہ خبر یہ بھی ہے کہ ان کارروائیوں کا نقصان اقلیتوں کے مقابلے اکثریتی فرقہ کو زیادہ ہواہے۔ بہر حال مانایہی جاتاہے کہ ملک میں کل زمین کا تقریباً بیس فیصد حصہ ناجائز قابضوں کے ہاتھوں میں ہے۔ دہلی میں ہی ایم سی ڈی اور ڈی ڈی اے کی زمینوں پر جو فٹ پاٹھ یادیگر استعمال کیلئے طے ہے، اس پر پختہ تعمیر کرکے ہوٹل، گیراج اورٹیکسی اسٹینڈ تک بنالئے گئے ہیں۔ اس سے عام شہریوں کو پیش آنے والی پریشانیوں کا بس اندازہ ہی لگایاجاسکتاہے۔ ایسے تجاوزات حادثہ تک کو دعوت دیتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں کہیں بھی تھوڑی سی خالی سرکاری جگہوں پر کسی نہ کسی طرح کی تعمیر کرلی گئی ہے۔ نہیں کچھ تو مذہبی ڈھانچہ ہی کھڑا کردیاجاتاہے جس کو ہٹانے میں حکومت کے ہاتھ پیر پھولنے لگتے ہیں۔ وہیں وقف قانون کے تحت تو کسی کی زمین وقف جائیداد قراردی جاسکتی ہے جس پر کوئی دوسرا عام طور پر دعویٰ بھی نہیں کرسکتا۔
اس پس منظرمیں اگرعدالت عظمیٰ کی نئی رہنماہدایات کو پڑھاجائے تونئی راہ بنتی دِکھ رہی ہے۔ ہوتایہ ہے کہ قانون کی نظرمیں یاعام لوگوں کی نظرمیں بھی غیرقانونی تجاوزات چبھتے ہیں اور اس پر کارروائی کا مطالبہ کیاجاتاہے لیکن ممکن ہے کہ کارروائی کرنے والی سرکاری ایجنسیوں سے بھی چوک ہو یادستاویز کا غور سے مطالعہ نہ کرنابلڈوزر کی کارروائی کا سبب بنے۔ اس لئے ایسی کارروائیوں میں طریقہ عمل پر چلنے کی بات عدالت نے کہی ہے۔ عدالت کا واضح موقف ہے کہ سرکاری نظام اورعام آدمی ، یہاں تک کہ جس کی جائیداد کا انہدام ہوناہے، سبھی کو انصاف ملناچاہیے۔ یہی سبب ہے کہ اپنی رہنما ہدایات میں عدالت نے ایسی کارروائی کیلئے وقت کی حد طے کرنے ، نوٹس بھیجنے ، جواب دینے کا موقع دینے اورمعاملہ اگرقابل قرار ہے تو جرمانہ ادا کرکے سمجھوتہ کرنے جیسے التزمات بتائے ہیں۔ ایسے معاملوں کا انسانی پہلو کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اگرکسی ملزم کا گھرگرادیاجاتاہے تو بغیرکسی غلطی کے اس کے رشتہ دار بھی سزاپاجاتے ہیں، جو دل دہلادینے والا منظرپیش کرتاہے۔ حالانکہ دادا گیری کے بل پر کئے گئے ناجائز قبضہ پر کارروائی مناسب معلوم ہوتی ہے، لیکن جن معاملوں میں شک وشبہ ہو وہاں پورے دستاویز ات کا باریکی سے مطالعہ ہوناہی چاہیے۔ جن معاملوں میں پہلی نظرمیں ہی تصویر صاف ہوجائے اُن میں جلد ازجلد کارروائی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اگرایسا نہیں کیاگیا تو ایک دن انارکی عروج پر پہنچ سکتی ہے۔ واقعی اگرکسی نے باضابطہ طور پر زمین خریدی ہے اوراُسکے پاس دستاویز موجود ہیں تو اُسے منہدم کرنا حکمراں کیلئے گلے کی پھانس بن سکتاہے۔ اس سے عوام میں بھی ناراضگی پیدا ہوتی ہے کیونکہ آدمی سب کچھ برداشت کرلیتاہے لیکن یہ نہیں برداشت کرسکتاکہ جس مکان کو اس نے اپنے خون پسینے سے سینچاہے ، جس کی ایک ایک اینٹ جوڑنے کیلئے محنت کی ہے، اسے صرف شک کی بنا پر کوئی منہدم کردے۔
دراصل تجاوزات کے معاملے میں سرکاری نظام کہیں زیادہ قصور وار نظرآتاہے کیونکہ غیرقانونی تعمیر کو روکنا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن اس کے افسران کسی لالچ کے سبب اس کی اندیکھی کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ مجھے یاد آتاہے ،جب دہلی ہائی کورٹ میں غیرقانونی قبضہ کا ایک معاملہ اس لئے نہیں ٹک سکاکیونکہ متعلقہ محکمہ کے افسران نے لیپاپوتی کردی۔ نتیجتاً آج اس جگہ پر تجاوزات زیادہ تیزی سے ہورہے ہیں۔ یہ پورا معاملہ زمینی اصلاحات کی طرف اشارہ کررہاہے۔اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہیے کہ ہرجائیداد کا مالک اپنی جائیداد کا حساب عام کرے اوراُس پر مناسب ٹیکس ادا کرے۔ غیرقانونی قابضوں کی تعداد چونکہ اپنے ملک میں کم نہیں ہے اس لئے ایسی زمینوں سے سرکاری خزانے کو چونا لگ رہاہے مگرہوتایہ ہے کہ یہ سب ایک لمبی کارروائی ہے اوربلڈوزر چلانے کا حکم فوراً مل جاتاہے، اس لئے آسان راستہ اپنالیاجاتاہے ۔ جبکہ ایسی کارروائیوں میں زمین کے ایک ٹکڑے کو چھوڑ کر سب کچھ برباد ہوجاتاہے۔ اس لئے عدالتِ عظمیٰ نے ٹھیک ہی اس کیلئے اتھارٹی کے توسط سے سماعت کی بات کہی ہے۔ توقع ہے کہ یہ فاسٹ ٹریک کورٹ سے بھی زیادہ کام کرے گی اورحتمی حکم صادر کرکے غیرقانونی ڈھانچے کی قسمت کا جائز فیصلہ کرے گی۔ اس سے حکومتوں کو کتنی زمین مل سکتی ہے اورعوام کے مفاد میں کتنے کام ہوسکتے ہیں۔ اس کا محض اندازہ ہی لگایاجاسکتاہے۔
جرمیات کا ایک اہم اورمستند اصول ہے کہ جس نے جرم کیا ہے ، سزا اُسی کو دی جائے ۔ لہٰذا غیرقانونی قابضوں کو جیل جاناچاہیے، ان کے رشتہ داروں کو نہیں ۔ ہاں اگرپوری جانچ کے بعد زمین متجاوز ثابت ہو تواس پر بلڈوزر چلانے سے اعتراض نہیں ہوناچاہیے۔ اس میں شاید ہی انصاف کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔ خصوصاً زمین مافیاؤں کے معاملے میں یہی دیکھاگیاہے کہ ان کے پاس اپنے دعوے سے متعلق صحیح کاغذات نہیں تھے ۔ جب کاغذ درست نہ ہو تب قانونی کارروائی سے کسی کو کیوں اعتراض ہوگا؟اگرایسے معاملوں میں بلڈوزر نہیں چلے گا تو جس نے اس پر قبضہ جمارکھاہے وہ تواپنا حق بڑھاتا چلا جائے گا اوربے گناہوں کو تنگ کرتارہے گا۔ اس سے حکومت پر بھی انگلی اٹھے گی اورملک کا وجود ہی خطرے میں پڑ سکتاہے۔ حالانکہ یہ پوری کارروائی قانون ونظم کے تحت ہی ہو جس کو بنائے رکھنے کی اہم ذمہ داری عدالت عظمیٰ نے ٹھیک ہی حکومتوں پر ڈالدی ہے۔ اس طرح عدالت نے بلڈوزر انصاف پر حتمی فیصلہ سناکر نہ صرف قانون کی بالادستی کے اصول کو قوت بخشی ہے بلکہ جمہوریت اورآئین کی بقاء کو بھی مضبوط کیاہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے لئے سزا مجرم کو سدھارنے کاایک ذریعہ ہے نہ کہ اسے ہرحالت میں سزاد دینے کا ارادہ ۔ اگرغیرقانونی انہدام کا ایک بھی واقعہ کہیں بھی ہوتاہے تو وہ آئین کی فطرت کے خلاف ماناجائے گا۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS