حسیب اے درابو
جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے ذریعے منظور کردہ آئینی حیثیت کی بحالی کے لئے منظور کی گئی قرارداد کی حمایت پر اپنی پوزیشن واضح کرنے پر انڈین نیشنل کانگریس کو دیوار سے لگانے کے بعد بھارتیہ جنتا پارٹی وادی میں اپنے کھیل میں کامیاب ہوچکی ہے۔ اس نے ٹیریٹری کی سیاست کو بالکل اُس مقام پر لا پہنچایاجہاں وہ چاہتی تھی۔جموں میں ایک اکثریتی نظریہ اور وادی میں بہت سے متضاد خیالات اور اس پر طرہ یہ کہ پارٹی نے اسمبلی کے ایک تہائی حصے کو یرغمال بنادیا۔
بی جے پی نے کامیابی سے کشمیر کو ایک علامت سے استعارہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ پہلے کی تمام حکومتوں بشمول انڈین نیشنل کانگریس ،جنتا دل اور این ڈی اے جیسی دیگر حکومتوں نے بھی کشمیر کو سیکولرازم، تکثیریت، تنوع اور شمولیت کی علامت کے طور پر استعمال کیا۔ بی جے پی نے اسے تبدیل کرکے قوم پرستی، انضمام اور فیصلہ کن گورننس یا حکمرانی کا استعارہ بنایا۔
انداز میں نمایاںفرق کے باوجودکانگریس نے جموں و کشمیر کی حکومت کو بے اختیار کر دیاجبکہ بی جے پی نے لوگوں کو اپنے ہی حقوق سے محرو م کرکے ان کی شناخت ہی چھین لی تاہم ان دونوں کی سیاست کا مادہ ایک جیسا رہا ہے۔کانگریس نے دفعہ370کو کھوکھلا کر کے اسے عضو ئے معطل بنا کر دکھ دیاجبکہ بی جے پی نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور پورے ملک کے انتخابات میں اس پر اپنا سیاسی محل تعمیرکردیا۔
بی جے پی کے لئے370نشستوں کا واضح طور پر علامتی ہدف مقرر کرنے سے لے کر طاقتور ٹیگ لائن ’’جو کہا، وہ کیا‘‘ تک، قومی بیانیہ تقریباً خصوصی طور پر کشمیر کے گرد بُنا گیا اور یہ نہ صرف ماضی تک محدود نہیں تھا بلکہ یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر این ڈی اے دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو وہ پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کو واپس لے لے گی۔
یہ اس حقیقت کے باوجود کہ آرٹیکل 370کی منسوخی ہندوستان کے لوگوں کا سب سے بڑا دھوکہ تھا جس طرح آرٹیکل 370 کانگریس کی طرف سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ کیا گیا سب سے بڑا دھوکہ تھا۔ 2019تک منسوخ کرنے کے لئے اس میںبچاہی کیا تھا؟
کشمیر کو خود مختار حیثیت دینے والے تین بنیادی عناصر اس کا اپنا آئین، ریاست کا ایک منتخب سربراہ اور مقننہ کے بقایا اختیارات تھے۔ آئین کو عملی طورپر 23جولائی 1975کو اُس وقت غیر فعال بنادیاگیاتھا جب ریاستی مقننہ کو اس میں ترمیم کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ریاست کے منتخب سربراہ کو 24نومبر 1966کو وفاق کے ایک نامزد شخص نے تبدیل کر دیا اور 30جولائی 1986کوبچے کھچے اختیارات اُس وقت ختم کردئے گئے جب آئین ہند کی دفعہ 249کا دائرہ جموںوکشمیر تک بڑھاکرپارلیمنٹ کو ریاستی فہرست میں شامل معاملات پر بھی قانون سازی کرنے کا اختیار دیاگیا۔درحقیقت وفاق میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں جموںوکشمیر کو اُن سے بدتر بنایاگیا۔ یہ سچ ہے کہ آرٹیکل 35 اے کو منسوخ کرنا ایک نئی کمزوری تھی، یہاں تک کہ اس سے استثنیٰ کے ساتھ محیط کیا جا رہا تھا۔
دانشمندی کے ساتھ، نیشنل کانفرنس نے ایوان میں پیش کی جانے والی تحریک میں “خصوصی حیثیت” کی اصطلاح استعمال کرکے تشریحی بارودی سرنگوں سے گریز کیاتھا۔ بعض اوقات مبہم اور لایعنی ہونے کا الزام لگانے کی قیمت پر بھی معاملات کو کھلا رکھنا بھی مدد کرتا ہے۔ یہ واضح ہو جائے جوں کی توں پوزیشن سے پہلے کی بحالی صرف مطالبہ کرنے کے لئے نہیں ہے۔ اس کے لئے طویل اور سخت مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اس لئے کچھ سٹیٹ کرافٹ کی ضرورت ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی لغت کا استعمال کرکے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے اپنے ایجنڈے پر دستخط کیے تھے۔ عوامی طور پر دستیاب دستاویز میں لکھا ہے’’جموں و کشمیر سے متعلق تمام آئینی دفعات پرموجودہ پوزیشن برقرار رکھی جائے گی جس میں ہندوستان کے آئین میں خصوصی حیثیت بھی شامل ہے‘‘۔دستاویز میں آرٹیکل 370اور/یا آرٹیکل 35اے کی کوئی تفصیل نہیں ہے۔حیرانی کی بات ہے کہ اب وہ انہی اصطلاحات کو کمزور، مبہم اور سمجھوتہ قرار دے رہے ہیں۔
قانون سازی کے لحاظ سے دیکھاجائے تو ایسی کوئی بھی قرارداد، چاہے اس میں الفاظ کا چنائو کیسے بھی کیاگیا ہو،بہترین طور پر محض ایک رائے کا اظہار ہے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ خاص طور پر اس وقت ہے جب یہ معاملہ پہلے ہی عدالتی جانچ پڑتال میں آ چکا ہے۔ سمتا اندولن سمیتی بنام یونین آف انڈیاکیس میں مارچ 2020میں، سپریم کورٹ آف انڈیا نے فیصلہ کیا کہ خصوصی حیثیت کی بحالی کے بارے میں ریاستی مقننہ کی طرف سے منظور کی گئی کوئی بھی قرارداد’’قانون کی نظر میں صرف ایک رائے بنتی ہےاور اس کا کوئی قانونی اثر یا نتیجہ نہیں ہے‘‘۔ اس رائے کی توثیق راجیہ سبھا میں طریقہ کار اور کاروبار کے ضابطے (قاعدہ 155) اور لوک سبھا میں کاروبار کے طریقہ کار اور طرز عمل کے قواعد (قاعدہ 171) دونوں سے ہوتی ہے۔
اس کے باوجود جبکہ ایوان کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے،یہ سیاسی اثر ڈالنے کے قابل ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ این سی کی تحریک ،جو ایوان نے ایک قرارداد بننے کیلئے منظور کی ،کا مسودہ اس حقیقت اور مقصد سے پوری طرح واقف ہو کر تیار کیا گیا تھا۔ یہ دروازے کے اندرپیر رکھنے جیسی ایک قرارداد تھی، جس کی اگر مناسب طور پر دیگر تمام وادی پر مبنی پارٹیاں حمایت کرتیں تو مرکزی حکومت کو تشویش لاحق ہو سکتی تھی۔
جوں کی توں پوزیشن سے قبل صورتحال کی بحالی کی قرارداد ایک معنی خیز قانون سازی کا ایجنڈا بن سکتی تھی نہ کہ زبان کو تبدیل کرکے بلکہ اسے انتخابات سے پہلے ایک متحدہ سیاسی ایجنڈا بنا کر۔ قلیل مدت تک زندہ رہنے والے پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن(PAGD) کی ٹوٹ پھوٹ کے وقت ہی آج کی اس قانون سازی بے آہنگی اور اختلاف کے بیج بوئے گئے تھے۔
مان لیتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کی تحریک میں لفظ “تشویش” کا استعمال نامناسب تھا کیونکہ یہ اس تکلیف، ذلت اور دھوکہ کی عکاسی نہیں کرتا جومنسوخی نے وادی کے لوگوں کو پہنچائی ہے۔اسکے بجائے سرکاری مسودے کو زیادہ حساسیت اور جذباتی حقیقت کی عکاسی کرنے پیشگی تحاریک یا ترامیم پیش کی گئی ہوتیں۔
اس کے بجائےایوان میںبچگانہ ون مین اپ شپ اور سوشل میڈیابیان بازی “سرکاری” قرارداد کی مخالفت کیلئے محض ایک حربہ تھا۔ پیشگی حرکت سے لے کرتعریف نو کرنے کے مطالبہ تک کا پورا ریزولیوشن ڈرامہ سکرپٹڈتھا جس کا واحد مقصد ایک مضبوط مینڈیٹ کے ساتھ منتخب حکومت کے ذریعہ مقننہ میں لائی گئی قرارداد کا مذاق اڑانا تھا۔ نیشنل کانفرنس حکومت کی طرف سے لائی گئی قرارداد میں جو بھی محدود تقدس تھا، اسے کمزور اور بے وقعت کرنامقصد تھا۔ اسے تمام لوگوں اور جماعتوں کی قرارداد کے طور پر دیکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی تھی۔ اس سے یہ آرٹیکل 370کی منسوخی پر ایک ریفرنڈم بن جاتا۔ اس لئےمنتخب حکومت کی سیاسی اثر رکھنے کی معمولی سی طاقت رکھنے والی قرارداد کو ختم کرنے کے لئے ایک لغو دعویٰ بازی اور ڈرامہ رچایاگیا۔
وہ مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ کشمیر میں کوئی ’’ایک متفقہ نظریہ‘‘نہیں ہے بلکہ وہاں اور بھی بہت سے نظریات ہیں۔نئی دہلی کے خلاف جو یک قلب ،یک آواز مطالبہ ہونا چاہئے تھا، وہ وادی کی مرکزی جماعتوں کے درمیان ایک گھمبیر بین جماعتی لڑائی میں بدل گیا۔ان میں ایک دوسرے کے خلاف بے مثال جنون اور سیاسی لڑائی کو ذاتیات تک پہنچانے کا مادہ ہے۔
اس کے علاوہ، بلاشبہ دھینگا مشتی کے نتیجے میں دو اسمبلیاں کام کرتی رہیں، اسمبلی کا ایک متوازی اجلاس ہوا اور ایک اور سپیکر کا انتخاب ہوا۔ قانون ساز اداروں اور عمل کی سالمیت پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ یہ قانون ساز اسمبلی کے ایک تہائی حصہ کی جانب سے منسوخی کی حمایت کرنے کو نہ تو مناسب طور پر تسلیم کرنے اور نہ ہی واضح طور پر اعتراف کرنے کا براہ راست نتیجہ بھی ہے۔جموں میں، خصوصی درجہ کے لئےاب بھی جذبات موجودہوسکتے ہیں لیکن ووٹ نظریاتی بنیادوں پر ڈالے گئے ہیں جس کی صرف نظر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ مظلوم کو ظالم نہیںبنناچاہیے۔ اگر جموں و کشمیر کو ایک سیاسی اور انتظامی اکائی کے طور پر اکٹھے رہنا ہے تو مقننہ کو بحث و مباحثہ اور مکالمے کا ایک فورم بننا ہوگا، ڈرامے اور فساد کا میدان نہیں۔