کسی شخص کی ذاتی یا پھر خاص طبقہ کی ملکیت کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب آج چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی 9 ججوں کی بنچ نے دے دیا۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ 9 ججوں نے مجموعی طور پر 3 فیصلے لکھے ہیں۔
ویسے تو عدالت نے اپنا جو حتمی فیصلہ سنایا ہے، اس میں کہا ہے کہ ہر ایک ذاتی ملکیت کو حکومت اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکتی۔ حکومت صرف ان وسائل پر ہی دعویٰ کر سکتی ہے جو سماج کی بھلائی کے لیے ہیں اور طبقہ کے پاس ہیں۔ یہ فیصلہ 2-7 کی اکثریت سے سنایا گیا۔
اس بنچ میں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس رشی کیش رائے، جسٹس بی وی ناگرتنا، جسٹس سدھانشو دھولیا، جسٹس جے بی پاردیوالا، جسٹس منوج مشرا، جسٹس راجیش بندل، جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح شامل تھے۔ جو 3 فیصلے لکھے گئے وہ اس طرح ہیں:
چیف جسٹس چندرچوڑ کی بات سے اتفاق رکھنے والے مجموعی طور پر 7 ججوں کا فیصلہ سب سے اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت ہر ایک ذاتی ملکیت کو اپنے کنٹرول میں نہیں لے سکتی۔ ذاتی ملکیت کو سماجی وسائل تبھی مانا جائے گا جب وہ کچھ ٹھوس پیمانوں پر کھرا اترے۔
بنچ میں شامل جسٹس بی وی ناگرتنا نے اپنا الگ فیصلہ لکھا۔ انھوں نے 7 ججوں کے ساتھ اتفاق بھی ظاہر کیا اور کچھ نکات پر اعتراض کا اظہار بھی کیا۔
جسٹس سدھانشو دھولیا اکثریت والے فیصلے سے متفق نہیں تھے۔ جسٹس دھولیا نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ یہ پارلیمنٹ کے اوپر ہے کہ وہ جغرافیائی وسائل کو کس طرح اپنے کنٹرول میں لیتا اور پھر سماج میں تقسیم کرتا ہے۔
واضح رہے کہ 23 اپریل 2024 کو اس معاملے میں سماعت ہوئی تھی۔ یکم مئی کو 5 دن کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے صاف ہو گیا کہ ذاتی یا پھر طبقہ کی ملکیت پر حکومت کا حق بنتا ہے یا نہیں۔ یہ فیصلہ سماجی انصاف کی لڑائی کو ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ 2023 میں ’آکسفیم‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے ٹاپ 5 فیصد لوگوں کے پاس ملک کی مجموعی ملکیت کا کم از کم 60 فیصد حصہ تھا۔
جبکہ کم از کم میں گزر بسر کر رہی ہندوستان کی 50 فیصد آبادی ملک کی محض 3 فیصد ملکیت کے ساتھ زندگی میں جدوجہد کرنے کے لیے مجبور ہے۔ عدم مساوات کے اسی فرق کو ختم کرنے کے سوال پر لوک سبھا انتخاب میں جس وقت بی جے پی اور کانگریس بحث کر رہے تھے، سپریم کورٹ کے 9 ججوں کی آئینی بنچ اس پر غور و خوض کر رہی تھی۔ اس سوال کا جواب تلاش کیا جا رہا تھا کہ کیا کسی ذاتی ملکیت کو قبضے میں لے کر حکومت اسے ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کر سکتی ہے؟ اب یہ جواب سب کے سامنے ہے۔