بلا شبہ اس وقت پوری دنیا ٹیکنالوجی اور سائنس میں ڈوبی ہوئی ہے اور انسانی اذہان کامیابی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔جہاںٹیکنالوجی سے بے شمار فوائد حاصل کئے جارہےہیں وہیں اس کی مدد سے پوری دنیا کے لوگوں کےدرمیان باہمی رابطے بھی بڑھ رہے ہیں۔لیکن اس کے باوجود ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیںکہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی سماجی ، سیاسی یا مذہبی میدان میں خدمت کرنے والوں یافلاح و بہبودی کے کاموں میں اپنا بہترین حصہ ڈالنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کے رُجحان میںنمایاں اضافہ ہورہا ہے اور اس کام میں
ایسے بہت سےلوگ مصرو ف ِ عمل ہیں جو ہر معاملے میں اپناغلبہ پانےاور اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ کوئی اُن سے آگے نہ بڑھے اور سیاسی،سماجی یا دینی طاقت حاصل کرے۔ایسے لوگ سیاسی ،سماجی و مذہبی تنظیموں کو اپنے اپنے انداز میں ڈھالنے کی کوششوں میںلگے رہتے ہیں تاکہ کوئی بھی لائق، روشن خیال، ذہین اور فعال فرد اُن سےآگے نہ بڑھ سکے۔ اپنے اس مقصد کے لئےوہ کسی بھی سچے،اچھے اور کامیاب فرد پربے جا الزام لگا کر اُس کی عزت سے بھی کھلواڑ کرتے ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے تو ہر سُویہی دکھائی دیتا ہے کہ ایسے لوگ ایسا طرزِ عمل اس لئےاپناتے رہتے ہیں کہ دوسروں کی کامیابی کوبرداشت کرنے کا مادہ اُن میںمفقود ہوتا ہے،جس کے نتیجے میں وہ عموماً ناحق حسد، عدم تحفظ یا تبدیلی کا خوف محسو س کرنے لگتےہیں۔چنانچہ جو لوگ کسی اور کی کامیابی کواپنے لئے خطرہ سمجھنے لگتےہیںوہی دوسروں کو کمزور کرنے کے لئے اُن کی ٹانگیں کھینچنے میں لگ جاتے ہیں،گویااُن کا یہ سلوک اُس شخص کا عکس نہیںہوتا جو کامیابی حاصل کر رہا ہے بلکہ خود اُن کے لئےعدم تحفظ کے محرکات کا عکاس ہوتاہے ۔ ظاہر ہےکہ جب کوئی شخص اپنی زندگی میں ناخوش ہوتا ہے تو وہ اکثر دوسرے کی کامیابی کو خطرے کے طور پر دیکھتا ہےاور اُس کی کامیابی پر خوش ہونے کے بجائےاُسے ہی اپنی ناکامیوں کا مرکز بنا لیتا ہے،پھر اپنی اَنّا اور حسدکے تحت اُس کی کامیابی یا خوشی کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میںلگا رہتا ہے۔یہ واقعی افسوس ناک فعل ہےجو ہمارے معاشرے کے زیادہ تر افراد میں فروغ پاچکا ہے۔حالانکہ جس چیز کو وہ اپنے لئے خطرے کے طور پر سمجھتے ہیں ،وہ دراصل اُن کے لئے ایک بہتر انسان بننے کا محرک ثابت ہو سکتا ہے،البتہ یہ سب کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کسی چیز کو کس نظریے اور کس انداز میں دیکھتے ہیں اور اُس کی معلومات کو کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پُر عزم،محنت کش اور ذہین لوگ صرف ایسے اقدامات کرنے کا انتخاب کرتے ہیں جو اُنہیںکامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کامیاب ہوکراپنے تمام خوابوں کو حاصل کر لیتے ہیںکیونکہ کامیابی حاصل کرنا ایک ایسی دوڑ ہوتی ہے،جس میں ہر کوئی حصہ لےسکتا ہےاور جب تک کوئی آگےبڑھ رہا ہے،وہ کبھی بھی دوسروں کو نیچا دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ہے،جبکہ اس لے لئے لازم ہوتا ہےکہ وہ اُن لوگوں میں سے بن جائیں جو راستے میں گرے ہوئے لوگوں کو اُٹھا نے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ اس دنیا میں کہیں بھی مشکل سے ہی دو لوگوں میں یکسان صلاحیت پائی جاتی ہے۔ کچھ محنت اور حقیقت سے محبت کرنے والے ہوتے ہیں جبکہ کچھ بالکل اسکے برعکس ہوتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ جب ایسے لوگ کسی مقام پر آپس میں ٹکراتے ہیں تو بعد والے کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دنیا ‘اس کی گھڑی کے مطابق نہیں چلتی ہے، ایسے لوگ اس حقیقت کو برداشت نہیں کرپاتے جس کا وہ سامنا کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ ہمیشہ دنیا کو اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں بغیر کسی محنت اور ذہانت کے شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے تنگ نظر لوگ کبھی بھی حقیقی کامیابی کی گہرائی کو نہیں سمجھ پاتےہیں اور اپنی عزت کو نفرت کے سستے اعمال کی نذر کرتے رہتے ہیں۔اس لئے یاد رکھیں کہ دوسروں کی کامیابی پر ہم ضرور رشک کرسکتے ہیںلیکن اُن کی کامیابی پر حسد میں آکر اُن کا معیار گرانے اور اُن کی محنت کو دُھندلا کرنے کی ہرگزکوشش نہ کریں تاکہ وہ اپنے معاشرے میںسیاسی ،سماجی اور دینی میدان میں باکردار ،شفاف اور کامیاب رول ادا کرسکیں،جس کی اس وقت ہمارے معاشرے کو اشد ضرورت ہے۔
ایک دوسرےکی ٹانگیں کھینچنے کا رجحان
*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times
(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.
Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)
Watch Live | Source Article