ڈاکٹر عبیدالرحمٰن ندوی
طب کے میدان میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیاہے اور ان کی خدمات قابلِ ذکر رہی ہیں۔آج بھی طب کے میدان میں معاصر دنیا ان کی غیر معمولی خدمات کی معترف ہے۔جراحی کے وہ آلات جن کا ابھی بھی استعمال ہوتاہے جیسے سرنج،کلاب،ہڈی کاٹنے کی آری اور پلاسٹرکا قالب وہ سب الزہراوی کی طرف منسوب ہیں۔وہ انسانی جلد پر دندانے ڈالنے والے پہلے معالج کے طور پر بھی جانے جاتے تھے جو آج تک ایک معیاری عمل ہے۔انہوں نے زخم کوداغنے اور اس میں ٹانکا لگانے کے عمل کو بھی ایجاد کیا۔حقیقی معنی میں اگر مسلمانوں نے قدیم یونانی متن کا ترجمہ نہ کیاہوتا تو یورپی احیاء وتجدید کا عمل اس طرح وجود میں نہ آتا جیسا کہ وہ وجود میں آیا۔بلاشبہ مسلمانوں نے فلکیات، حیوانیات، جغرافیہ، علم اعداد، جہاز رانی، ادب، فن تعمیر اور ٹکنالوجی بشمول طب میں اہم ترقیاں کیں۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عربوں کے پیش کئےہوئے طبی ادب کی حیثیت صدیوں تک یورپ میں مرجع کی رہی اور طبی علوم میں ان کی تحقیقات آج بھی قابلِ قبول ہیں۔عربوں نے علمِ طب کے مختلف شعبوں کو منظم کیا اوراس میدان میں زبردست تحقیقات کیں۔ان کی کتابیں جیسے ’’فردوس الحکمۃ‘‘، ’’کامل الصناعۃ‘‘، ’’القانون‘‘ اور ’’الحاوی‘‘ طبی علوم اور طب کے ارتقا کے لیے ان کی تحقیقات پر شاہد ہیں۔ (Medical Philosophy successful Islam and the Contributions of Muslims to Advancement of Medical Sciences, P. 14)
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ قرآن وسنت کی تاثیر نے عرب کی طبی فضا کو بدل کر رکھ دیا۔عرب جو متعدد امراض کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے کیونکہ وہ تشخیص امراض سے ناواقف تھےاوراپناعلاج مروج عوامی دواؤںسےکرتےتھے،انہوںنےطب کےہرشعبہ میںعلمِ طب کوبلندی پرپہنچادیا،جیسےعضویات،تشریح الاعضا،امراضیات،جرثومیات،عملِ جراحی،دواسازی،ترکیبِ عناصر،ادمیات،امراض چشم،امراضِ نسواں،علم الادویہ،علم امراضِ وبائی،جراحی برائےتقویم الاعضا،جمالیات،نفسیاتی علاج،امراضِ بطن،جراحی دندان،تشخیص اور علاج۔
دنیا کی کوئی تہذیب قبولیت اور جذب کے عمل سے محفوظ نہیں رہی۔عربوں کے بطور جماعت درس وتحقیق اور بطور غالب اورفاتح فوج کے ظہورنے انہیں مفتوحہ زمینوں میں یونانیوں، فارسیوں اور ہندوستانی طبی نظام سے روبرو کرایا۔ انہوں نے اس کا مطالعہ کیا اوراسے محفوظ کرلیا۔درحقیقت انہوں نے یونانیوں کی خدمات کو ابتدائی چرچ کے ہاتھوں فنا ہونے سے بچایا اوراسے ایک سائنسی بنیاد عطا کی۔یونانیوں کی بنیاد قیاس آرائیوں پر تھی اور وہ تجربہ اور مشاہدہ کو نظرانداز کرتے تھے۔لفظ ’ڈاکٹر‘، اسپتالوں کا نظام اور طبی تعلیمات کے ادارے عربوں نے قائم کیے جنہوں نے طب اور جراحی پر کتابیں لکھیں اور یورپ میں احیاء وتجدید کی بنیاد رکھی‘‘۔ (ibid, P. 7)
یورپ میں پہلے میڈیکل کالج کا قیام جو عمل میں آیاتھا اس کی بنیاد سیلرنو ،اٹلی میں عربوں نے رکھی تھی۔پہلی فلکی رصدگاہ کی تعمیر انہوں نے ہی سیولے،اسپین میں کی تھی۔ (History of the Conflict Between Religion And Science, P. 114-115)
الرازی کا سب سے مشہور علمی کام دس جلدوں میں طب کا جائزہ کتاب المنصور ی ہے جو خراسان کے شہزادے کی طرف منسوب ہے۔جیرالڈ آف کریمونا نے اس کے کچھ حصے کا لاطینی میں ترجمہ کیاہے، اس ترجمے کی نویں جلد’’Nonus Almandoris‘‘ یورپ میں سولہویں صدی تک ایک معروف متن کی سی رہی۔ (The Age of Faith, P. 247)
الرازی نے جدید طبیات متعارف کرائے جیسے سیمابی مرہم،ا ور ٹانکالگانے میں حیوانات کی آنتوں کا استعمال۔انہوں نے پیشاب کی جانچ کا دلچپسی سے معائنہ کیا ایک ایسے زمانے میں جب اطباء کبھی کبھی بغیر مریض کو دیکھے پیشاب کی جانچ کرکے تشخیص کرنے کی طرف مائل تھے ۔ (The Age of Faith, P. 247)
اس دور میں اور آنے والے زمانے میں مسلمانوں نے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے نمایاں اطباء پیدا کیے۔انہوں نے خصوصی طور پر بصریات میں تفوق حاصل کیا، غالبًا ایسا اس لیے کیونکہ مشرق وسطی میں امراض چشم عام تھیں؛ مزید دیگر مقامات پر دوا علاج کے لیے فراہم کی جاتی تھی، بچاؤ کے لیے کم۔موتیابند کے آپریشن مختلف تھے۔حلب کے خلیفہ ابن ابی المحاسن (۱۲۵۶ء) کو اپنی اس مہارت پر اتنا یقین تھا کہ انہوں نے یک چشم شخص کے موتیا بند کاآپریشن کیا۔ (Introduction to the History of Scince Col. 1, P. 772)۔اسپتالوں کی بنیادغالباًندیشاپور کے قدیم اور معروف تعلیمی اسپتالوں کے قالب میں پہلے ہی پڑ چکی تھی۔ایک اسپتال کے لیے پورے عالمِ اسلام میں فارسی نام بیمارستان کا استعمال ہوتاتھا۔کم از کم چونتیس اداروں کے متعلق ہمارے پاس مستند خبریں ہیں۔وہ عالمِ اسلام میں ایران سے مراکش تک، شمالی شام سے مصر تک منقسم تھے۔ (The Legacy of Islam, P. 335-336)
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اسلام نے آلات اور اپنے اسپتالوں کی اہلیت کے دم پر دنیا کی قیادت کی۔ایک کی بنیاد نور الدین نے دمشق میں ۱۱۶۰ء میں رکھی تھی جس میں تین صدیوں تک مفت دواعلاج ہوتاتھا۔ہمیں بتایاجاتاہے ۲۶۷ سالوں تک، اس کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی تھی(یعنی چوبیس گھنٹہ اس کی خدمات حاصل تھیں)۔ابن جبیر جب ۱۱۸۴ء میں بغداد آئے تو بیمارستان عدادی دیکھ کر ششدر رہ گئے،ایک ایسا اسپتال جو دریائے دجلہ کے کنارے کسی شاہی محل کی طرح کھڑاتھا؛یہاں مریضوں کو کھانا اور دوا مفت میں دی جاتی تھی۔قاہرہ میں، ۱۲۸۵ء میں، سلطان قلاؤن نے قرونِ وسطیٰ کا ایک عظیم ترین اسپتال مارستان المنصور کا آغاز کیا۔ایک کشادہ چوگوشیا احاطے میں ایک صحن کے ارد گرد چار عمارتیں کھڑی تھیںجو محرابوں سے مزین تھیںاور جس میں چشموں اور چھوٹی ندیوں سے ٹھنڈک حاصل ہوتی تھی۔مختلف امراض اور صحت یاب ہوئے لوگوں کے لیے علیحدہ کمرے تھے، تجربہ گاہیں تھیں، ایک مطب تھا، دواخانہ تھا،باہری مریضوں کے کلینک،پرہیزی باورچی خانہ، حمام، ایک لائبریری،ایک عبادت خانہ، ایک لکچر ہال اور خصوصی طور پر مجنونین کے رہنے سہنے کے لیے خوشگوار رہائشی انتظام تھا۔مردوں اور عورتوں، امیر اور غریب، غلام اور آزادلوگوں کا علاج مفت ہوتاتھا؛اور کچھ رقم صحت یاب ہوئے شخص کو اس کی روانگی کے وقت دے دی جاتی تھی تاکہ اسے فوراً اپنے کام پر نہ لوٹنا پڑے۔بے خوابی سے پریشان مریضوں کے لیے ہلکی موسیقی، پیشہ ور داستان گو، اور شاید تاریخی کتابیں فراہم کی جاتی تھیں۔ مجنونین کی دیکھ بھال کے لیے اہم اسلامی شہروں میں پاگل خانے تھے۔ (طب العرب، ص ۱۵۸-۱۵۷)
خلاصہ کلام یہ کہ مذکور بالا بحث اور تفصیلات کی روشنی میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ کہاجاسکتاہے کہ یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے جدید علمِ طب کی بنارکھی، یہاں تک کہ اس کے مختلف میدانوں میں انہوں نے تفوق حاصل کیا۔بلاشبہ یورپ کا احیاء تعلیم کے مختلف شعبوں میں بشمول علومِ طب اسلامی خدمات اور کارہائے نمایاں کا مقروض ہے۔ جیسا کہ عالمی شہرت یافتہ عالمِ دین مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی فرماتے ہیں:’’یورپی احیاء وتجدید کا واحد شعبہ ایسا نہیں ہے جو افکارِ اسلامی کا مقروض نہ ہو۔ اسلام نے یورپ کو زندگی کی ایک نئی حرارت عطا کی ہے‘‘۔
[email protected]