محمد امین اللہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ۔’’ لوگوں سے خوش خلقی سے یعنی نرم لہجے میں بات کیا کرو ۔ ‘‘ (البقرہ۔ 83)
حضرت لقمان ؑ نے سورہ لقمان میں اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ بیٹا لوگوں سے نرمی سے بات کرو ۔ سب سے بُری آواز گدھے کی ہوتی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں گرفتاری کا کرشمہ تھا کہ لوگ آپ کے حسن کلام سے متاثر ہوکر اور پیغام قرآن سن کر ایمان لاتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے خلق عظیم بنا کر مبعوث کیا ہے ۔ مثل مشہور ہے کہ زباں شیریں تو ملک گیری ۔ زبان اور لہجے کی سختی سے مخاطب کو نہ صرف تکلیف ہوتی ہے بلکہ وہ متکلم سے ناراض ہو کر دور بھاگتا ہے ۔اگر لوگوں کا دل جیتنا ہو تو ان سے نرم لہجے میں بات کرو ۔ بہت زیادہ بات کرنا بھی آدمی کی حیثیت کو کم کر دیتا ہے ۔ ایک قول ہے کہ خاموش رہنا سیکھو تاکہ تم فرشتوں کی سرگوشیوں کو سن سکو ۔
بنو گے خسروئ اکلیم تم شیریں زباں ہوکر
جہاں گیری کرے گی یہ ادا نور جہاں ہو کر
خوش خلق انسان کا حلقہ احباب زیادہ ہوتا ہے ۔ والدین کے ساتھ ہمیشہ نرمی سے بات کرنا ایک اولاد پر لازم ہے ۔ بڑے بوڑھے بزرگوں کا احترام یہ ہے کہ ان سے نرم لہجے میں بات کی جائے ۔ جس میں اول درجہ استاد کا ہے ۔ ایک چپ سو دکھ سے بچاتا ہے ۔ منہ در منہ جواب دینے سے بہتر ہے کہ پہلے سنا جائے پھر تولا جائے اس کے بعد بولا جائے ۔ خوش خلقی اس وقت کار آمد اور پر اثر ہوگی جب دلیل سے بات کی جائے ۔ بولتے وقت انداز بیان میں الفاظ غیر میعاری نہ ہوں اور نہ زیادہ ثقیل ہوں کہ سننے والے کو سمجھ میں نہ آئے اور ناگواری ہو۔
آج بھیڑ کیوں ہے اس قدر میخانے میں
بات اتنی سی ہے کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
ساقی کا نرم اور مسکراتا لہجہ میخانے کی بھیڑ میں اضافہ کر دیتا ہے ۔ یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگوں کو دھوکا دینے والے اکثر چکنی چپڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ حسن خلق نہیں ہے ۔ قاری ، نعت خواں اور مغنی کی مترنم آواز دل کو موہ لیتی ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی زبان اور شرم گاہ کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں ۔ جنت کے حصول کے لئے زبان کو قابو میں رکھنا لازم ہے ۔ یہ ہماری زبان جو بتیس دانتوں کے درمیان ہر وقت گردش میں رہتی ہے یہ اپنے نرم اور گداز ہونے کی وجہ کر زخمی ہونے سے محفوظ رہتی ہے ۔ ہم اگر اپنے جسم کی بناوٹ پر غور کریں تو دیکھتے ہیں کہ اللہ نے زبان ایک دی ہے اور کان دو، اس لئے کہ زیادہ سنیں اور کم بولیں ۔
بد گوئی اور بد کلامی انسان کی شخصیت کو دو کوڑی کا بنا دیتی ہیں ۔ یہ رشتوں کو دشمنی میں تبدیل کر دیتی ہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافق کی پہچان یہ ہے کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے، جھوٹ بولتا ہے، عہد کا پیمان نہیں کرتا، بات بات پر جھوٹی قسمیں کھاتا ہے، غصّے میں گالی دیتا ہے ۔ چند دہائیوں قبل اگر کوئی کسی کو سالا بول دیتا تھا تو جھگڑے کی نوبت آ جاتی تھی مگر آج نوبت یہ آگئی ہے کہ دوست یار از راہِ تفنن ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے ہیں ۔ آپ کسی بھیڑ والے بس میں سوار ہوں اور غلطی سے آپ کا پیر کسی کو لگ جائے وہ چھوٹتے ہی گالی سے نوازے گا ۔ مالک اپنے نوکر کو ذرا ذرا سی بات پر گالی دینے سے گریز نہیں کرتے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذرا سی رنجش پر گالی گلوج پر اتر آتے ہیں ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں اور بات مار کٹائی اور علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے ۔ بڑھے بوڑھوں کا کہنا ہے کہ گلہ دراز بہو کا گزارہ نہیں ہوتا ۔ میں چونکہ پیش کے اعتبار سے ایک استاد ہوں اور گزشتہ پچاس سال سے اس دشت کا مسافر ہوں، لہٰذا نسل نو کے سابقہ اور موجودہ کے نس نس سے واقفیت ہے ۔ اس سلسلے کا ایک تجربہ بیان کرتا چلوں ۔ واقع کچھ یوں ہے کہ ایک کے جی کی بچی اپنے کلاس کے بچوں کو بہت ہی نازیبا گالیاں دیتی تھی ۔ایک دن میں نے اس کو بلایا اور پوچھا بیٹا !کیوں گالی دیتی ہو، اس نے کہا: سر میرے ابو امی کو اسی طرح گالی دیتے ہیں ۔ بہر حال یہ بد کلامی اور بد گوئی ہمارے معاشرے کی بگڑے ہوئے اخلاقی حالات کی نشان دہی کرتے ہیں ۔اب تو حال یہ ہے کہ بد کلامی ممبر و محراب سے نکل کر ایوان اقتدار تک پہنچ چکی ہے ۔ علماء اور واعظین مسلکی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی بنیاد پر ایک دوسرے کو نازیبا الفاظ سے پکارتے ہیں ۔ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں قومی نمائندے ایک دوسرے کو ننگی گالیاں دیتے ہیں اور مار پیٹ کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ وطالبات بھی آئے دن ایک دوسرے سے نہ صرف لڑتے جھگڑتے ہیں بلکہ عام حالات میں گالم گلوج معمول ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو معنی الفاظ بولنے سے منا فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ ایسے الفاظ نہ بولے جائیں ،جس کے اچھے اور برے دونوں معنی نکلتے ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید البقرہ 104 میں مومنین کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے کے لئے ’انظرنا ‘کہنے کا حکم دیا جبکہ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راعنا کہہ کر پکارتے تھے ۔ ایک مرتبہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو سخت سُست کہہ رہے تھے اور ابوبکر صدیقؓ خاموش تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے مگر جیسے ہی ابو بکر صدیقؓ نے جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے ۔ ابو بکر صدیق ؓ نے پوچھا یا رسول اللہؐ آپ تو اس سے ناراض نہیں ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ تمہاری طرف سے اس کو جواب دے رہا تھا مگر جیسے ہی تم نے جواب دیا فرشتہ چلا گیا ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ لوگوں کی بدکلامی کا جواب نہیں دینا چاہئے ۔
سورہ الحجرات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ ’’اے ایمان والو نہ مرد مردوں کا مذاق اڑائیں اور نہ عورتیں عورتوں کا ہو سکتا ہے ،وہ تم سے بہتر ہوں ۔ کسی پر عیب نہ لگائو اور نہ بُرے القاب سے پکارو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا نہ کرو ۔ جو ایسا کرے گا ظالموں میں شمار ہوگا ۔‘‘
’’ایمان والو ! بدگمانیاں نہ کرو ،زیادہ بد گمانیاں گناہ ہے ۔ کسی کی غیبت نہ کرو، یہ اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر ہے ۔ تجسّس نہ کرو ، اللہ سے ڈرتے رہو ،بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘ (آیت 11, 12 )آج جہاں کہیں کچھ دوست بیٹھتے ہیں ،اس طرح کی گفتگو شروع ہو جاتی ہے ۔ عورتوں میں یہ بیماری زیادہ ہے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم کسی ایسی محفل سے اٹھے ہو جو اللہ اور رسول کے ذکر سے خالی تھی تو تم گویا مردار گدھے کی صحبت سے اٹھے ہو ۔ پچھلے کچھ سال سے سوشل میڈیا کے توسط سے ایک دوسرے پر نازیبا تبرا کرنا معمول ہے بلکہ ایک جماعت نے اس کام اور مخالفین پر لعن طعن کرنے کے لئے با ضابطہ ایک نیٹ ورک قائم کر دیا ہے جو رات دن مخالفین کو گالیاں دینا ،ان کی ہتک کرنا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ حتیٰ کی عام آدمی ہو یا کسی بڑے رتبے والا کسی کی عزت نفس محفوظ نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے مگر زبان سے لگایا زخم کبھی نہیں بھرتا ۔ سب سے بڑی آفت آفات الاسان ہے ۔ اگر ہو گفتگو بنائے فتنہ تو بہتر ہے منہ سے کچھ نہ بولو ۔بد کلامی اور بد زبانی میں سب سے بڑا کردار فلموں ، ڈراموں اور سوشل میڈیا کے مختلف ورژن میں بولے جانے مکالمے اور کلمات ہیں ،جس نے نہ صرف ادب و احترام کے پرخچے اڑا دیئے ہیں بلکہ حیا سوزی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں ۔ والدین ، اساتذہ اور بزرگ حضرات سب کے سب اس بدکلامی اور بد زبانی کی جارحیت کا شکار ہیں ۔ لیڈروں کی جلسے اور جلوسوں میں مخالفین کے حوالے سے نازیبا گفتگو کو رواج عام حاصل ہو گیا ہے ۔ طرح طرح کے القابات سے مخالفین کو نوازنا فن بنا لیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ مشہور زمانہ مزاحیہ اداکاروں نے تو حد کر دی ہے ۔ ہندوستان میں کپل شرما شو میں نیم عریاں اداکاراؤں کو بیٹھا کر غیر مہذب اور حیا سوز گفتگو کو خاص پذیرائی حاصل ہوتی جا رہی ہے اور اس شو کے ذریعہ کروڑوں کی کمائی کی جا رہی ہے ۔ محترم اور میاں بیوی کے پاکیزہ رشتوں کو غلیظ الفاظ سے نوازنا اور داد وصول کرنا پیشہ بن چکا ہے ۔ ٹک ٹاک کے ذریعہ اس زبان کی عریانی بڑھ چڑھ کر اس لئے کی جا رہی ہے کہ شہرت اور زیادہ سے زیادہ لائکس ملنے کے بعد ادارہ ڈالروں میں ادائیگی کرتا ہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ اس زبان کی اباہیت نے انسانی تکریم کو مکمل طور پر پا مال کردیا ہے ۔ اس کا سد باب صرف اور صرف خدا خوفی اور فکر آخرت ہے ۔یہ معاشرے کا ایسا انتشار اور فتنہ ہے کہ اگر اس کے سامنے بندھ نہ باندھا گیا تو رشتوں کے تقدس کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرہ بکھر جائے گا ۔ اللہ ہمیں بدکلامی اور بد گوئی سے محفوظ رکھے اور قولو للناس حسنا کے مصداق بنا دے جو آدمیت کی پہچان ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔