ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں اموات کی وجہ بنتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر یعنی گلوکوز کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اور اس پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے اور انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے مطابق دنیا بھر میں 53 کروڑ سے زیادہ افراد اس مرض کا شکار ہیں اور خدشہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 64 کروڑ سے بڑھ سکتی ہے۔
تنظیم کے مطابق ذیابیطس سے متاثرہ افراد میں سے 75 فیصد ایسے ممالک میں رہتے ہیں جن کا شمار غریب یا متوسط آمدن والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں کھانے پینے کی عادادت تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ ملکوں میں اس کا ذمہ دار سستے ’پروسیسڈ‘ کھانوں کو قرار دیا جاتا ہے۔
سنہ 2021 میں ایک اندازے کے مطابق 67 لاکھ افراد ذیابیطس اور اس سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔
ذیابیطس کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ 2021 تک کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں تقریباً سوا تین کروڑ بالغ افراد اس مرض میں مبتلا ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کا مریض ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں ہر برس ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں اموات کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے۔
ان خطرات کے باوجود ذیابیطس کا شکار فیصد لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی کئی معاملات میں بہتری لا سکتی ہے۔
ذیابیطس کی وجہ کیا ہے؟
جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارا جسم نشاستے (کاربوہائیڈریٹس) کو شکر (گلوکوز) میں تبدیل کر دیتا ہے، جس کے بعد لبلبے (پینکریاز) میں پیدا ہونے والا ہارمون انسولین ہمارے جسم کے خلیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ توانائی کے حصول کے لیے اس شکر کو جذب کریں۔
ذیابیطس تب لاحق ہوتا ہے جب انسولین مناسب مقدار میں پیدا نہیں ہوتی یا کام نہیں کرتی، اس کی وجہ سے شکر ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
ذیابیطس کی کتنی اقسام ہیں؟
ذیابیطس کی کئی اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
سائنسدان یہ تو نہیں جانتے کہ اس کی اصل وجہ کیا ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ شاید ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی وائرل انفیکشن کی وجہ سے کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیں۔
ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی۔
ایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے اور کسی خاص نسل سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً جنوبی ایشیائی افراد کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہے۔
کچھ حاملہ خواتین کو دورانِ زچگی ذیابیطس ہو جاتا ہے جب ان کا جسم ان کے اور بچے کے لیے کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔
مختلف مطالعوں کے مختلف اندازوں کے مطابق چھ سے 16 فیصد خواتین کو دورانِ حمل ذیابیطس ہو جاتا ہے۔ انھیں ایسے میں غذا اور ورزش کے ذریعے شوگر لیول کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے تاکہ اسے ٹائپ ٹو انسولین میں بدلنے سے روکا جا سکے۔
اب لوگوں کو خون میں گلوکوز کی بڑھی ہوئی سطح کے بارے میں تشخیص کر کے انھیں ذیابیطس ہونے کے خطرے سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
ذیابیطس کی علامات کیا ہیں؟
عمومی علامات
بہت زیادہ پیاس لگنا
معمول سے زیادہ پیشاب آنا، خصوصاً رات کے وقت
تھکاوٹ محسوس کرنا
وزن کا کم ہونا
دھندلی نظر
زخموں کا نہ بھرنا
برٹش نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق ٹائپ ون ذیابیطس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔
ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کا شکار افراد 40 سال سے زائد عمر کے ہوتے ہیں (جنوبی ایشائی افراد 25 سال کی عمر تک)۔ ان کے والدین یا بہن بھائیوں میں سے کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے، ان کا وزن زیادہ ہوتا ہے یا وہ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد جنوبی ایشیائی مالک کے لوگوں کی، چینی باشندوں کی، جزائر عرب الہند اور سیاہ فام افریقیوں کی ہے۔
کیا میں ذیابیطس سے بچ سکتا ہوں؟
ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔
پروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز اور سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔
ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر سفید آٹا، سفید روٹی، سفید چاول، سفید پاستا، بیکری کی اشیا، سوڈا والے مشروبات، مٹھائیاں اور ناشتے کے میٹھے سیریل۔
صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج شامل ہیں۔ اس میں صحت مند تیل، میوے اور اومیگا تھری والے مچھلی کے تیل بھی شامل ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔
جسمانی ورزش بھی خون میں شوگر کے تناسب کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ برطانیہ میں این ایچ ایس تجویز کرتا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ڈھائی گھنے ایروبکس کرنا یا تیز چہل قدمی یا سیڑھیاں چڑھنا مفید ہے۔
جسم کا صحت مند حد تک وزن شوگر لیول کو کم رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہی تو اسے آہستہ آہستہ کریں یعنی آدھا یا ایک کلو ایک ہفتے میں۔
یہ بھی اہم ہے کہ آپ تمباکو نوشی نہ کریں اور اپنے کولیسٹرول لیول کو کم رکھیں تاکہ دل کے عارضے کا خطرہ کم ہو۔
ذیابیطس میں پیچیدگیاں کیا ہیں؟
خون میں شوگر کی زیادہ مقدار خون کی شریانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اگر خون کا جسم میں بہاؤ ٹھیک نہ ہو تو یہ ان اعضا تک نہیں پہنچ پاتا جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعصاب کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے درد اور احساس ختم ہو جاتا ہے، بینائی جا سکتی ہے اور پیروں میں انفیکشن ہو سکتا ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ نابینا پن، گردوں کے ناکارہ ہونے، دل کے دورے، فالج اور پاؤں کٹنے کی بڑی وجہ ذیابیطس ہی ہے۔