معاشرتی نظام میں تبدیلیوں کے نتائج

5 hours ago 1

بے شک پچھلے تین عشروں سے ہمارے معاشرتی نظام میں جو تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہیںاور مختلف قسم کی بُرائیاں اور خرابیاں پروان چڑھتی گئیں،اُن سےمعاشرے کا زیادہ تر حصہ نہ صرف سماجی ،اخلاقی ،تعلیمی اور دینی معاملوں کے بنیادی اصولوں سے دور ہوتا چلا گیا بلکہ زندگی کے تقریباً سبھی معاملات کے قواعد و ضوابط اور مقاصد سے بھی منحرف ہوتا رہا۔خصوصاًمعاشرے کی نوجوان نسل کی بڑی تعداد زندگی کے اصل حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہو گئی۔آج صورت حال یہ ہے کہ معاشرے کی زیادہ ترنوجوان نسل جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے مشاغل میں ہی مگن ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پراخلاقی بگاڑ میں اضافہ ہورہا ہے۔ احترام، رواداری اور معاشرتی ذمہ داری کے اصول معدوم ہورہے ہیںاورذہنی سوچ و رویوں میں بے ادبی اور خود غرضی عام ہوتی جا رہی ہے۔ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ دنیاوی لذتوں اور خواہشات کے حصول میں سارامعاشرہ روحانی ضرورتوں سے منہ پھیر چکا ہےاور محض مادیت کی دوڑ میںبھاگم بھاگ کر رہاہے ۔ اگرچہ معاشرےکی نوجوان نسل کی ایک خاصی تعداد کے پاس دنیا کی آسائشیں اور سہولیات میسر توہیں، مگراُن میں اسلامی تعلیمات اور حقیقی ایمان کی روح نابوداوردینی احکام کا شعورو عمل مفقود ہے۔ نوجوان نسل میں ایسی غیر اسلامی عادات پروان چڑھ چکی ہیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے بالکل خلاف ہیں۔معاشرے کےبعض لوگ اپنے دین سے اس حد تک دور ہوچکے ہیں کہ اگر کوئی اُن سے پوچھے کہ آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے، تو تڑاک سے جواب دیتے ہیں کہ نماز کا اسلام سے کیا تعلق ہے،اگر ہے تو سارے مسلمان اسے ادا کرتےکیوں نہیں کرتے ہیں؟جس سے یہی عندیہ ملتا ہےکہ اُنہیں روحانی بیماریوں نے گھیر لیا ہے جن سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ سگریٹ نوشی، شراب نوشی، موسیقی، فلموں اور دیگر منشیات کے استعمال میںہی نہ صرف اپنا پیسہ اور قیمتی وقت ضائع کررہے ہیںبلکہ اپنی دنیا و آخرت کوبھی بُرباد کرتے چلے جارہےہیں۔نوجوان نسل ان چیزوں کے حصول کے لئے جھوٹ بولتے ہیں،چوریاں کرتے ہیں،یہاں تک کہ والدین کے حقوق ، بزرگوں کی تعظیم،اساتذہ کا احترام اورہمسایوں کے لحاظ تک کا خیال نہیں رکھتے اور اس طرح کے بے شمار گناہ کرتے رہتے ہیں۔واقعی یہ صور تحال ہمارے معاشرے کے باشعور اور ذی ہوش طبقےکےلئے لمحۂ فکریہ ہےکہ جن بُرائیوں اور خرابیوں نےاوپر سے نیچے تک ہمارے معاشرے کا احاطہ کررکھا ہے،اُن سے نہ صرف ہمارا معاشرتی نظام بکھرتا چلا جارہا ہے بلکہ ہماراتہذیب و تمدن ،ہمارےاقدار اور ہماری اسلامی روایات کی عکاسی تک معدوم ہورہی ہےاور جس راستے پرہمارا معاشرہ رواں دواں ہے،وہ معاشرے کی مزیدزوال پذیری کے ساتھ ساتھ انتہائی تباہ کُن بھی ثابت ہوسکتا ہے،جبکہ اس سلسلے میں مسلسل کوتاہی عبرت ناک نتائج کی حامل بن سکتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی معاشرے میں ہر طرح کی خرابیوں اور بُرائیوں کا گراف حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس معاشرے کا ہر معاملہ بگڑ جاتا ہے ،اُس کی نظام زندگی بکھر جاتی ہے ، اُسے ہر میدان میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور ایسا معاشرہ کسی دُوررس اور صائب فیصلے تک کبھی نہیں پہنچ پاتا ہے۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ کسی بھی بُری حالت یا مشکلات و مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنے میںانسان کی سنجیدہ سوچ ،صبر و تحمل اور اعلیٰ اخلاقی صفات بروئے کا رآتی ہےلیکن افسوس اس امر کا ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر فرد انفرادی یا اجتماعی طور پر اس صورت حال پر غوروفکر کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا کہ جس راستے پر ہم چل رہے ہیں،وہ ہر معاملے میں لا حاصل ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دانشور حضرات ، ہمارے اکابرین،ہمارے علمائے کرام اس تبدیلی کو کا سنجیدہ نوٹس لیںاور معاشرےمیں فروغ پاچکی خرابیوں اور بُرائیوںکے نقصانات کا احسا س دلانے کے لئے یک جُٹ ہوجائیں تاکہ معاشرے کا ہر فرد اپنےمعاشرتی نظام میں وقوع پذیر تبدیلیوں کا جائزہ لے سکیں،اپنا محاسبہ کریںاور پنپ چکی خرابیوں اور بُرائیوں کو دور کرنے کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس بات کو محسو س کرلیں کہ بدترین افراد ہیں وہ، جو اپنے معاشرے میں خرابیوں اور بُرائیوں کو فروغ دینے میں شریکِ کار رہیں۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article