پولیس کا ملی ٹینٹوں کے حمایتی نیٹ ورک پر بڑا کریک ڈاؤن، 50 سے زائد مقامات پر چھاپے

5 hours ago 2

جموں// جموں و کشمیر پولیس نے دہشت گردوں کے حمایتی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں 50 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔
پولیس کے مطابق، اس دوران کئی مشتبہ افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا اور دہشت گردوں کے مبینہ اوور گراؤنڈ ورکرز کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ جموں زون کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس آنند جین نے اس کارروائی کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا، “ہم نے اوور گراؤنڈ ورکرز کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں اور 50 سے زائد مقامات پر چھاپے مارے ہیں۔ مزید مقامات پر بھی کارروائی جاری ہے۔ ہم ان دہشت گردوں کے حمایتی نظام کو نشانہ بنا رہے ہیں”۔
یہ کاروائیاں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں کی جا رہی ہیں۔
آنند جین نے کہا، “پچھلے کچھ مہینوں میں دہشت گردانہ حملے ہوئے ہیں، اور ہماری فورسز نے کامیاب مقابلے بھی کیے ہیں۔ اب ہم ان دہشت گرد نیٹ ورکس کے حمایتی نظام کے خلاف سخت کارروائی کر رہے ہیں”۔
23 نومبر کو بارہمولہ پولیس نے کنزر علاقے میں ایک دہشت گرد ٹھکانہ تباہ کر دیا۔ بارہمولہ پولیس، بڈگام پولیس، اور 62 آر آر کی مشترکہ ٹیم نے جنگلات میں یہ کارروائی کی۔
پولیس کے مطابق، ٹھوس شواہد کی بنیاد پر یہ آپریشن کیا گیا، جس میں اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا۔ اس کاروائی سے دہشت گردوں کے مذموم منصوبے ناکام بنائے گئے اور وادی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کو مزید مضبوط کیا گیا۔
اسی روز، بارہمولہ پولیس نے ایک بدنام منشیات فروش رفیق احمد خان المعروف رفی رافا کی جائیداد کو ضبط کیا۔ ضبط شدہ جائیدادوں میں دو منزلہ رہائشی مکانات، ٹپر، ٹرالر، اور ایک فور وہیلر شامل ہیں، جن کی کل مالیت 1.72 کروڑ روپے بتائی گئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ جائیدادیں منشیات کی سمگلنگ سے حاصل کی گئی آمدنی سے خریدی گئی تھیں۔

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article