سوال:۱-یہاں بزرگوں کے ساتھ ساتھ اب نوجوان بھی اپنےہا تھ تسبیح لئے پھرتے ہیں ۔بظاہر وہ ذکر واذکار کا شمار کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔سعودی عرب اس کی سب سے بڑی منڈی ہے ۔ یہاں کے بازاروں میں قدم قدم پر مختلف اقسام کی تسبیحاں ملتی ہیں ۔دُنیا بھر سے حاجی حضرات یہاں سے کافی تعداد میں ہر سال تسبیحاں لاکر اپنے عزیز واقارب او راحباب میں تبرکاً پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح سال بہ سال اس میں اضافہ ہوتارہتاہے ۔ کچھ لوگوں کا کہناہے کہ تسبیح کا استعمال قرآن وسنت سے ثابت نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر سعودی عرب میں اس کا کاروبار کیوں کیا جاتاہے ؟ اصل کیا ہے ،رہنمائی کرکے شکرگزارفرمائیں۔
سوال:۲-بھیڑ، بکری اور دوسرے حلال جانوروں کی طرح مچھلی بھی ایک جاندار ہے ۔جب باقی جانداروں کا ذبیح کرنا لازمی ہے تو مچھلی کے سلسلے میں کیا حکم ہے ؟
احمد اللہ ۔ پلوامہ (کشمیر)
تسبیح ہاتھ میں لینا عملِ تعامل
جواب:۱- ہاتھ میں تسبیح لے کر تسبیح پڑھنا بالکل دُرست ہے ۔ اس میں شرعاً کوئی اعتراض نہیں ہے ۔یہ تعداد پورا کرنے کا ایک آلہ ہے جیسے گھڑی اوقاتِ نماز جاننے کا ایک آلہ ہےاور مائک آوازِ اذان دور تک پہنچانے کا ایک آلہ ہےیا نقشہ سحری وافطار صرف وقت سحر وافطار جاننے کا آلہ ہے ۔تسبیح مذکرہ بھی ہے ۔یعنی جب یہ ہاتھ میں ہوتی ہے توخود بخود زبان کلمات تسبیح پڑھنے کے لئے متحرک ہوجاتی ہے ۔ جس کاتجربہ بارہا ہو تاہے ۔اس لئے ہر دور میں تمام اُمت اس پر عمل پیرا رہی ہے ۔ مختلف صحابہؓسے شمار کرنے کے لئے دانے اور دوسرے ذرائع استعمال کرنا ثابت ہے ۔ حضرت مولانا عبدالحئی لکھنؤی نے تسبیح کے ثبوت وجواز کے لئے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس میں احادیث سے ثبوت کے ساتھ تعامل امت بھی نقل فرمایا ہے ۔یعنی ساری امت جس عمل کو اپنا رہی ہے خصوصاً اہل علم اور صالح ومتقی حضرات اُن کا عمل تعامل کہلاتاہے ۔بہرحال تسبیح ہاتھ میں لینا دُرست ہے ۔جو شخص اس کو ناجائز سمجھتاہے وہ انگلیوں پر اُسی ترتیب کے مطابق شمار کرسکتاہے جو عمل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ اگرچہ اُس طریقہ کو سیکھنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا قدرے مشکل ہے ۔ آج کل انگلیوں پر شمار کرنے کا جو طریقہ رائج ہے وہ بھی احادیث سے ثابت نہیں ۔ہاں جو طریقہ احادیث سے ثابت ہے وہ سیکھے بغیر عملانا مشکل ہے اور ہرشخص انگلی کے شمار کرنے کا مسنون طریقہ جانتا بھی نہیں ہے ۔ بلکہ اکثر اہل علم بھی اس سے ناواقف ہیں۔
حلال وحرام کے بارے میں
اللہ کا حکم اطمینان کے لئے کافی
جواب:۲-حلال جانور کو ذبح کرنے کاحکم اس وجہ سے ہے کہ اُس حلال جانور کے جسم سے حرام خون، جوپورے جسم میںہے، بذریعہ ذبح باہر نکل جائے ۔
مچھلی میں خون ہوتا ہی نہیں ہے اس لئے اس کے لئے ذبح کا حکم نہیں دیاگیا۔خون کے لئے رگوں اور نسوں کانظام ہوتاہے اور مچھلی میں یہ نظام ہوتا ہی نہیں ہے ۔ اس لئے جب خون نہیں تو ذبح کرنے کا حکم بھی نہیں ہے ۔دوسرے جو اللہ ان تمام کاخالق ہے اُس اللہ نے ایک جانور کو حرام قرار دیا دوسرے کو حلال ۔ پھر جس کو حلال قرار دیااُس میں کچھ کو ذبح کرکے کھانے کا حکم دیا اور کچھ کو بغیر ذبح کے کھانے کی اجازت دی ۔اور ہر حکم کے پیچھے ایک اہم مقصد ، مصلحت اور فلسفہ ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱- اگر کسی گھر میں کوئی بھی فرد ،مرد ہویا عورت ، چھوٹا ہو یا بڑا، غرض کوئی بھی نماز نہیں پڑھتاہو ۔ کیا اُس گھر میںدعوت کھانا جائزہے اور پورا یقین ہوکہ اس گھر میں کوئی بھی نماز نہیں پڑھتاہے ۔
سوال:۲-کچھ لوگ ایسی جگہ پر ڈیوٹی دیتے ہیں جہاں سے مسجد شریف میں نماز پڑھنے نہیں جاسکتے ہیں ۔ اب اگر ایک کمرہ مقرر کیا جائے اور وہاں پر جماعت قائم کی جائے ۔ کیا وہاں پر اذان دینا ضروری ہے ۔ چونکہ باقی مسجدوں کی اذانیں اچھی طرح سنتے ہیں ۔
سوال:۳- دل سے بُرے خیالات کو نکالنے کی کوئی اچھی ترکیب بیان کریں ۔
غلام نبی …… اسلام آباد کشمیر
بے نمازیوں کے گھر میں کھانا جائز مگرتلقینِِ صلواۃ لازم
جواب:۱-جس گھر کے لوگ نماز نہ پڑھیں اُس گھر میں دعوت کھاناتو جائز ہے مگر اُن کونماز کی تلقین کرنا لازم ہے ورنہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تمہارے یہاں ہم ضرور کھانے میں شریک ہوتے مگر تمہارے ترکِ صلوٰۃ کی وجہ سے ہم بطور احتجاج کے شریک نہ ہوںگے لیکن کھانے کو ناجائز نہیں کہہ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے میں جماعت کیلئے اذان لازم نہیں
جواب:۲-مسجد سے دور ہونے کی بناء پر کمرے کے اندر جماعت پڑھی جائے تووہاں اذان پڑھنا لازم نہیں ہے ۔اگر پڑھی جائے تو بہتر ہے ۔
بُرے خیالات سے بچنے کی ترکیب
جواب:۳- جب بھی بُرے خیالات آئیں تو لاحول ولاقوۃ کثرت سے پڑھتے رہیں ۔ نیز بُرے خیالات سے بچنے کی دعا مسلسل کرتے رہیں ۔ جب بُرے خیالات آئیں تواعوذباللہ بھی مسلسل پڑھنے کا معمول بنائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :- کتنے سال کے عمر کے بچوں کو ہم صفوں میں شامل کرسکتے ہیں ؟
نابالغ بچوں کو پچھلی صف میں کھڑا کیا جائے
جواب:-بچہ اگر بالغ ہوگیا ہو تو اُس کو مردوں کی صف میں کھڑا کرنا دُرست ہے ۔ اگرنابالغ ہو تو پچھلی صف میں کھڑا کیا جائے جس وقت بچے پر غصل فرض ہو جائے اُس وقت وہ بالغ ہوجاتاہے ۔ اگر احتلام نہ ہو اور اسی حال میں عمرپندرہ سال ہوگئی ہو تو پھر پندرہ سال کی عمر ہونے پر بالغ قرار پائے گا اور جب بالغ قرارپائے تو پھر بالغ مردوں میں صف میں کھڑا ہونا درست ہے ۔ دراصل شریعت نماز میں صفوں کی ترتیب اس طرح قائم کرنے کا حکم دیاہے کہ پہلے بالغ مرد صف کھڑی کریں ۔ پھر بچوں کی صف بنائی جائے تاہم اگر کبھی کوئی نابالغ بچہ صف میں کھڑا ہوگیا تو اس سے بالغ مردوں کی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۔آج گردوں کی بیماری کے سبب سے گردے عطیہ(Donate) کرنے کا عمل عام ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
بشیر احمد ، گاندربل
گرد و ں کا عطیہ کرنے کی اہم شرائط
جواب:گردوں کا عطیہ جائزہے مگر تین شرطیں لازم ہے (۱) گردوں کی قیمت نہ لی جائے۔(۲) گردہ دینے والے کو خود ناقابل تلافی نقصان یا شدید بیماری کا خطرہ لاحق نہ ہو(۳) جسے گردہ دیا جائے اُسے فائدہ پہنچنے کا گمان غالب ہو ورنہ ایسا نہ ہو کہ ایک سے گردہ لیا گیا اور دوسرے کو کار گر نہ ہوا۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی ٹوٹ جائے تو گردوں کا Donationدرست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-کیا مسجد شریف میں مطالعہ قرآن کے دوران موبائل فون پر بات کرنا جائز ہے ؟
ایک سائل۔ کشتواڑ
مساجد میں گفتگو کرنے کا معاملہ
جواب:۱-مسجد میں دنیوی باتیں کرنا ممنوع ہے لیکن وہ مختصر بات جس میں صرف ہاں اور ناں کی حد تک بات کرنی پڑے اُس کی اجازت ہے ۔اسی طرح ضرورت کی وہ بات جس کی سخت مجبوری ہواُس کی بھی اجازت ہے ۔اب اگر کوئی شخص مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت یا مطالعہ میں مشغول ہے تو ضرورت اور مجبوری کی بات چیت وہ فون پر بھی کرسکتاہے لیکن غیر ضروری اور بے فائیدہ یا تفریحی گفتگو کرتے رہنا یقیناً مسجد میں مکروہ ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید وفروخت اور شعرخوانی سے بھی منع فرمایا ہے ۔(ترمذی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:- کسی حاجت کو پورا کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنے کو نذر کہتے ہیں ۔ نذر رکھنے کا شرعی طریقہ کیاہے ؟ کیا نذرکی رقم یا چیز مسجد کی تعمیر یا مدرسہ کودی جاسکتی ہے ۔ اگر نذر کوئی جانور ہو تو اس کےگوشت کو کن لوگوں میں بانٹاجائے ۔
ابوعقیل … سوپور
نذراداکرنے کا شرعی طریقہ
جواب:-نذرکاشرعی طریقہ یہ ہے کہ اپنے کسی مشکل مرحلے کے لئے یا کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس طرح زبان سے نیت کی جائے ۔ اگر میرا یہ معاملہ حل ہوگیا ، یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی یا ہمارا فلاںبیمار تندرست ہوگیا تو میں اللہ کی راہ میں اتنی رقم صدقہ کروںگا یا جانور قربان کروں گا یا یہ مجھ پر لازم ہے ۔ پھر جب وہ معاملہ حل ہوجائے یا وہ مشکل حل ہوجائے گا تواتنی رقم صرف غریبوں میں تقسیم کی جائے ۔ یہ رقم مسجد میں خرچ کرنا درست نہیں ہے ، ہاں جس مدرسہ میں غریب بچوں پر کھانے پینے میں یہ رقم خرچ ہوسکتی ہواُس مدرسہ میں نذر کی یہ رقم دینا درست ہے جیسے زکوٰۃ وصدقہ فطر کی رقم اُن مدارس میں دینا درست ہے ۔اگر قربانی کی نذر مانی تو اس جانور کا گوشت سارے کاساراغرباء میں تقسیم کرنا ضروری ہے ۔
نذرکے لئے ضروری ہے کہ جس کام کو انسان اپنے اوپر لازم کرے اُس کی کوئی قسم شریعت سے پہلے ہی لازم کی ہو ۔مثلاً نماز، روز ہ، صدقہ ، حج ، قربانی ، خیرات انہی کاموں کو جب کوئی شخص اپنے اوپر لازم کرے گا تو وہ شرعی نذر بن جائے گی۔اگر کسی ایسے کام کو اپنے اوپر لازم کیا گیا جو شریعت نے نہیں بھی لازم کیا ہوتو وہ نذر نہیں بنے گی۔ اس لئے وہ عبادت نہ ہوگی اور نذر عبادت کے قبیل سے ہے چاہے بدنی عبادت ہویا مالی عبادت ہو۔