اخلاص کے پردے میں حسد رکھنے والے

2 hours ago 1

معاشرت

ندیم خان۔ بارہمولہ

کہا جاتا ہے کہ حسدبُری بلا ہے، حسد اور کینہ انسانی جذبات میں سے ایک خطرناک اور پیچیدہ جذبہ ہے، جو اگر حد سے بڑھ جائے تو انسان کو انتہائی سنگین اور ناقابلِ تلافی نقصانات کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آئے روز ایسی کئی داستانیں سننے کو ملتی ہیں جو حسد کے ہاتھوں بربادی کی عکاسی کرتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ان تمام واقعات کی جڑیں ہمارے معاشرتی رویوں ہی میں پیوست ہیں۔ عام طور پر لوگوں کی خوشیوں، محبت یا کامیابی کو دیکھ کر پیدا ہونے والا حسد کا جذبہ بعض اوقات اس قدر شدید ہوتا ہے کہ انسان اپنا ضمیر اور اخلاقی قدریں بھول جاتا ہے۔ گھریلو تنازعات اور رنجشوں کے پیچھے اکثر پوشیدہ رقابتیں ہوتی ہیں جو بعض اوقات جان لیوا حادثات کا سبب بنتی ہیں۔ اگر دل میں حسد، نفرت اور کینہ پرورش پانے لگے تو انسان اخلاقی پستیوں میں گر جاتا ہے۔ بہو اور ساس کے تعلق کو اکثر ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جہاں معاشرتی دبائو، اَنا اور روایتی توقعات دونوں کے بیچ رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اگر آنے والی بہو تعلیم یافتہ، سلیقہ شعار اور گھر کے افراد کی توجہ کا مرکز ہو تو بعض اوقات اس کی یہی خوبیاں قریبی افراد کے دلوں میں حسد کے شعلے بھڑکاتی ہیں جو اگر قابو سے باہر ہو جائیں تو پورے گھر کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ حسد ہی نے عزازیل کو ابلیس بنا دیا اور پھر اس پر بس نہیں کی، بلکہ آدم ؑ سے حسد کے باعث ان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں رسوا کرنے کی خاطر انہیں دانۂ گندم کھانے پر اُکسانے کا عمل بھی اسی حسد کا نتیجہ تھا۔ انسانوں سے اسی حسد کے باعث ابلیس قیامت تک کوشاں رہے گا کہ انسانوں کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اس مقام سے گرا دے۔ حسد ہی و ہ پہلا گناہ ہے جس کے باعث آسمانوں پر اللہ تعالیٰ کی پہلی نافرمانی کی گئی۔ تو گویا حسد ان اولین گناہوں کی دستے میں سرفہرست تھا جن پر گناہوں کی عمارت کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ سلسلہ پھر تھما نہیں، اسی حسد کی وجہ سے قابیل نے ہابیل کے ساتھ خونی رشتے کا لحاظ نہیں کیا اور اپنے سگے بھائی کو ہی قتل کر ڈالا۔ اسلامی تعلیمات اور روایتی سماجی اقدار میں باہمی محبت، احترام اور عفو درگزر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، مگر بد قسمتی سے آج کے ہمارے معاشرتی ڈھانچے میں اکثر لوگ ان اصولوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں خاندانی اختلافات، رشتوں میں تلخی اور بعض اوقات قتل جیسے سنگین جرائم کی صورت میں نکلتا ہے۔ قرآنِ کریم میں یہودیوں کے حسد کو کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے اور اس حسد کے سبب ہی امامت بنی اسرائیل سے چھین کر بنی اسماعیل کی جانب منتقل کر دی گئی تھی۔ اس انعام سے محرومی پر یہودی غیض و غضب کا شکار ہو کر حسد میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ایسا کردار اور اخلاق رکھنا درحقیقت ابلیس کے نقشِ قدم پر چلنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں، کیونکہ حاسد کا حسد کسی صورت بھی اللہ کے فیصلے کو بدل نہیں سکتا۔ ہر انسان کچھ خوبیوں اور کچھ خامیوں کا مجموعہ ہے۔ اپنے کردار اور مزاج میں موجود خامیوں کو سمجھتے ہوئے ان تمام خامیوں کی اصلاح کی کوشش کرنا مثبت تعمیری سرگرمی ہے لیکن اگر اپنی خامیوں کی اصلاح کے بجائے دوسروں کی صلاحیتوں اور خوبیوں پر انسان جلنا اور کڑھنا شروع کر دے تو یہ احساس حسد کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ آج جن برائیوں کا شکار ہے ان مسائل اور برائیوں کی جڑ دوسروں سے حسد ہے۔ حسد ایک ایسا زہر ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اتنا اندھا کر دیتا ہے کہ پھر وہ صحیح اور غلط کی تمیز کھو بیٹھتا ہے۔ اسلامی تاریخ میں حسد کی سب سے بڑی مثال ہمیں برادرانِ یوسف کی ملتی ہے۔ حضرت یوسف ؑ اپنی بہترین عادات، اعلیٰ کردار اور بے مثال معصوم حسن کی وجہ سے اپنے والد حضرت یعقوب ؑ کی آنکھ کا تارا تھے۔ بھائیوں کو اپنے والد کی یوسف ؑ سے بے پناہ محبت ناگوار گزرتی تھی اسی سبب انہوں نے یوسف ؑ کے قتل کا ارادہ کیا جو بعد میں بڑے بھائی کے مشورے پر بدل دیا اور انہوں نے یوسف ؑ کو کنویں میں پھینکنے پر اکتفا کیا، مگر اس سب کے باوجود وہ والد کی آنکھ کا تارا بن سکے نہ یوسف ؑ کے مقام کو پہنچ سکے اور نا انکا کچھ بگاڑ سکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہی اسباب سے حضرت یوسف ؑ کو پیغمبری اور بادشاہی سے سرفراز کیا۔

حسد نفسیاتی امراض میں سے ایک ہے اور ایسا غالب مرض ہے جس میں حاسد اپنی ہی جلائی ہوئی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ انسان کا نفس بنیادی طور پر دوسروں سے بلند و برتر رہنا چاہتا ہے۔ جب وہ کسی کو اپنے سے بہتر حال و مقام پر دیکھتا ہے تو یہ چیز اس پر گراں گزرتی ہے، لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ اگر یہ چیز اس کو حاصل نہیں ہے تو پھر یہ نعمت اس دوسرے انسان سے بھی چھن جائے۔ حسد کی سب سے بڑی جڑ انسان کا اس دنیائے فانی کی محبت میں مبتلا ہونا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندیشہ تھا کہ امتِ مسلمہ حسد کی لعنت میں مبتلا ہو جائے گی۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا: عنقریب میری امت کو پہلی امتوں کی بیماری پہنچے گی، صحابہؓ نے پوچھا: پہلی امتوں کی بیماری کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غرور، تکبر، کثرتِ حرص دنیا میں محو ہونا، ایک دوسرے سے حسد کرنا یہاں تک کہ بغاوت ہوگی اور پھر قتل بہت زیادہ ہوگا۔ حسد ایک ایسی روحانی بیماری ہے جو آغازِ کائنات سے چلی آرہی ہے اور ایمان کے ساتھ ساتھ بندے کے جسم کو بھی نا محسوس طریقے سے کھا جاتی ہے، لیکن انسان اس سے نا واقف ہی رہتا ہے اور اس میں مبتلا ہو کر جہاں کبھی کبھار دوسروں کا نقصان کرتا ہے وہاں اپنا نقصان لازمی کر بیٹھتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی شب و روز کی زندگی کاجائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ بیماری ہمارے اندر سرایت کرکے ہمارے خرمنِ دین و ایمان کو جلاکر راکھ کررہی ہو، تاکہ ہم جو کچھ چھوٹی بڑی نیکیاں کررہے ہیں اور جو ہم سے تھوڑے بہت کار خیر انجام پارہے ہیں، وہ ہمارے لیے اْخروی فلاح و کامیابی اور حصولِ جنت کا وسیلہ بن سکیں۔ حسد کا علاج کسی دو ا دارو، جھاڑ پھونک یا شیخ و مرشد کی توجہ سے ممکن نہیں، بلکہ یہ علم و عمل دونوں کا متقاضی ہے۔ اس کے بغیر حسد کا علاج نہیں ہوسکتا۔ کبھی کبھی یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لوگ کسی بھوکے کو کھانا کھلا دیتے ہیں اور اگر اس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے نہیں ہیں تو کپڑوں کاانتظام کردیتے ہیں، لیکن جب اْس شخص کی خستہ حالی، پریشانی اور مفلسی ختم ہوجاتی ہے، وہ خود کفیل ہو جاتا ہے، اور معاشرے میں سر اٹھا کر چلنے کے لائق ہو جاتا ہے، تو وہی لوگ اس سے جلنے اور اس پر شکوک و شبہات کی انگلیاں اٹھانے لگتے ہیں اور سماج میں اس کی تصویر خراب کرنے لگتے ہیں، جو کبھی اس کی بھوک کی حالت میں اْسے کھانا کھلا چکے ہوتے ہیں اور بے لباسی کی صورت میں اسے لباس فراہم کرچکے ہوتے ہیں۔ حسد کی تباہ کاریوں سے بچنے کا بہترین علاج یہی ہے کہ جس سے ہمیں کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا جسے ہم کسی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں اور اس کی فلاح و کامیابی ہمیں ایک آنکھ نہ بھاتی ہو، ہم اپنے آپ کو اس سے راضی کریں۔ اس کی ترقیِ درجات سے خوش ہونے کی عادت ڈالیں۔ اس کی عزت و شہرت سے تنگی و کوفت محسوس کرنے کی بہ جائے دل سے مسرت و شادمانی کا اظہار کریں۔ اگر ممکن ہوتو اس کی عزت و شہرت میں کچھ نہ کچھ اضافے کی کوشش کریں۔ جس محفل و مجلس میں اس کا تذکرہ ہو رہا ہو، اس میں خوش اسلوبی سے حصہ لیں اور اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ حسب موقع اس کی دعوت کریں اور تحائف و ہدایا کا اہتمام کریں اور اس کے دکھ درد اور خوشی و مسرت میں شریک ہوں۔ یہ علاج ہے تو تلخ مگر اس میں نہایت مؤثر و مفید شفا پوشیدہ ہے۔ اگر یہ طریقہ علاج ہم نے اختیار کرلیا تو اس میں ہمارے لیے غیرمعمولی سکون و راحت کا سامان ہے۔
(رابطہ۔ 6005293688)
[email protected]

*** Disclaimer: This Article is auto-aggregated by a Rss Api Program and has not been created or edited by Nandigram Times

(Note: This is an unedited and auto-generated story from Syndicated News Rss Api. News.nandigramtimes.com Staff may not have modified or edited the content body.

Please visit the Source Website that deserves the credit and responsibility for creating this content.)

Watch Live | Source Article