الطاف صوفی۔ بارہمولہ
آرٹیفیشل انٹیلجنس پر اسلام کا موقف اس اصول پر مبنی ہے جسے ہمارے اسکالرز فالو کرتے ہیں کہ تمام نئی چیزیں (سوائے عبادت کے ) کا استعمال کی اسلام اجازت دیتا ہے جب تک نہ اس کی حرمت بلکل واضح ہو ۔مشہور اسلامی اسکالر ابن تیمیہ ؒ کا کہنا ہے :’’اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ مختلف قسم اور مختلف درجات کی چیزیں عمومی طور پر انسانوں کے لئے حلال ہیں اور وہ پاک ہیں۔اور لوگوں کے لئے یہ ممنوع نہیں ہیں کہ وہ ان چیزوں کو استعمال کرے اور انہیں ہاتھ لگائے ۔یہ ایک جامع اصول ہے جو کہ اپنانے میں عام ہے ۔اور یہ ایک اہم فتویٰ ہے جسکے بے شمار فوائد ہے ۔اور اس سے آسانی پیدا ہوتی ہے ۔اور ہمارے علماء اس طرف
رجوع کرتے ہیں جبکہ انہیں ان معاملات میں فتویٰ جاری کرنے ہوتے ہیں جن معاملات میں الجھ کر لوگوں کو پریشانی لاحق ہوتی ہے ۔‘‘(مجموالافتویٰ)
ہمارے پاس ایسی کوئی شہادت نہیں ہے جس سے ہم یہ رائے قائم کرسکے کہ اسلام AIسے روکتا ہے یا اسکی حوصلہ شکنی کرتا ہے ،جس میں لوگوں کے لئے بہت سے فوائد ہے ۔اگر ہم اس بارے میں قرآن سے رہنمائی حاصل کریں تو اللہ فرماتا ہے : ’’ اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا ہے ۔جو لوگ غور کرتے ہیں اُن کے لئے اس میں (قدرت) کی نشانیاں ہیں ۔‘‘(الجاثیہ:۳۱)۔ اس آیت میں اللہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ زمین میں موجود ذرائع کا استعمال کریں اپنے فائدے کے لئے ۔ دوسری جگہ قرآن میں ،انسان کی بنائی ہوئی چیزیں اور دریافتیں جیسے کہ جہاز ،زرہ وغیرہ کو بھی اللہ کی رحمت اور اسکی نشانیاں قرار دیا گیا ہے ۔اسی طرح AI اور انسانی عقل کے ذریعے سے وجود میں آنے والی چیزوں کو اللہ کی طرف سے انعام کے طور پر لیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے ہماری روزمرہ زندگی میں آسانیاں پیدا ہوگئی ہے ۔ البتہ AI کو صرف اسی طریقے سے استعمال کرنا چاہیے ،جس میں عمومی طور پر لوگوں کے لئے فوائد ہو ۔جیسے کہ اللہ فرماتا ہے :’’ اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو،اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔اور نیکی کرو ۔بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔‘‘ اگرچہ اس آیت کا موضوع اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے مگر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کا حکم عام ہے ۔لہٰذا ایسی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا اور اسکا استعمال کرنا جو کہ نقصان دہ ہو اسلام کے روح کے منافی ہے ۔
مسلمانوں کے لئے آگے کا راستہ: اسلام نے علم اور ترقی پر کافی زور دیا ہے ۔اور اس بات کو ہمارے اسلاف نے ابتدائی دور میں اچھی طرح سے سمجھ لیا تھا ۔اور اس پر عمل کرکے بھی دکھایا تھا ۔نویں صدی میں الرازی کے لیبارٹری اوزار سے لے کر تیرویں صدی میں الجزاری کی پانی چڑھانے والی مشین تک ،مسلمان سائنسدان سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں عروج پر تھے ۔حقیقت یہ ہے کہ لفظ Algorithm جو کہ AI کی ساخت کا مرکز ہے اس لفظ کو الخوارزمی سے لیا گیا ہے جو کہ نویں صدی ہجری کے مسلم سائنس داں اور ریاضی داں محمد بن موسیٰ الخوارزمی کا نام تھا ۔جس نے سب سے پہلے Algorithmکا conceptپیش کیا ۔لیکن بعد کے دور میں خاص کر نوآبادیاتی دور میں مسلمانوں کا فکری زوال واضح تھا ۔آجکل کے دور میں مسلمانوں کا سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں contributionنہ ہونے کے برابر ہے ۔
وقت کا تقاضا ہے کہ مسلم ممالک کوAIمیں Investکرنا چاہیے ۔جس سے اُن کی معاشی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔اور بہت سے challengesکا وہ سامنا کرسکتے ہیں ۔مسلم ممالک میں یہ حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سائنسی علوم کو فروغ دینے میں پایسی مرتب کریں جس کے لئے انہیں فوری طور پر ایسے ادارے قائم کرنے ہوں گے جہاں پر سائنٹفک بنیادوں پر Curriculamمرتب کیا جائے ۔انہیں STEM(Science,Technology,Engineering and Mathematics) طلباء کے لئے اسکالر شپ اجراء کرنی چائیے ۔اور سائنسی میدان میں کام کرنے والے افراد کے لئے incentivesکا انعقاد کرنا چائیے ۔اس کے ساتھ ساتھ خواہشمند طلباء کو روایتی میدانوں کو چھوڑ کر سائنس کی Innovativeشاخوں کی طرف رُخ کرنا چاہیے ۔ آخر پر اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے پاس بہت زیادہ imaginable ہے کہ وہ AI fieldمیں آگے جاسکے ۔ہمارے پاس کئی مثالیں ہیں کہ کم ذرائع کے باوجود ہمارے مسلمان طلباء نے نئی چیزیں ایجاد کرنے میں کامیابی حاصل کی ۔جیسے کہ ہمارے پڑوسی ملک کےایک گریجویٹ اقصیٰ اجمل اس کام کے لئے مشہور ہوئے کہ انہوں نے نابینا لوگوں کے لئے ایک sewing instrumentality بنائی۔اسی طرح ایک اور طالب علم شہنازا منیر نے نابینا لوگوں کے خاص قسم کے جوتے بنائے ۔کورونا وائرس کے دوران تیونس کی سڑکوں پر پولیس روبوٹس جنہیں P Guardsکہتے تھے گشت لگاتے ہوئے دیکھے گئے تاکہ لاک ڈائون کو لاگو کیا جاسکے ۔جس فرم نے یہ روبوٹس بنائے ،بہت سارے مسلم سائنسدانوں کے لئے ایک مشعل راہ ثابت ہوسکتی ہے جو کہ AI کے میدان میں اپنا رول نبھانا چاہتے ہو۔ AI کا خوف ہمارے اوپر اس وجہ سے سوار ہے کہ اسکا کنٹرول ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔اور ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اسکا کنٹرول ہے وہ اسے غلط طریقے سے استعمال میں لائیں گے ۔
اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں ،ایک ہزار سال کا عروج کا دور جس میں جب بھی مسلم سائنسدان کوئی نئی چیز ایجاد کرتے تھے تو لوگ شکرانے کے طور پر نفل نمازیں ادا کرتے تھے ۔مٹھائیاں بانٹی جاتی تھی کہ رب نے ہمارے اوپر ایک اور فضل کردیا ۔اور پھر جب زوال آیا ۔دین اور دنیا کو الگ الگ خانوں میں بانٹا گیا ۔اب جو بھی ایجاد سامنے آتی تھی وہ غیر مسلموں کی طرف سے آتی تھی اور ہمارا رد عمل یہ رہتا تھا کہ ہم اُسکی مخالفت کرتے تے ۔مائیک کی ایجاد سے لے کر پولیو کی دوائی تک ہم نے ہر ایک کی مخالفت کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم انہیں چیزوں کا استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ آج AIکی مخالفت کرے گا ۔لیکن کل ہم اسکو اپنانے پر مجبور ہوں گے ۔بجائے اس کے کہ آج ہم اسکی مخالفت کریں، ہمیں اسکے حصول کے لئے اپنا رول نبھانا چاہیے ۔تاکہ ہم اپنے اصولوں کے مطابق اسکو استعمال میں لاسکیں ۔ ہمیں غفلت کی نیند سے بیدار ہونا ہے اور زمانے کے Challengesکا مقابلہ کرنا ہے ۔
altafsofi630@gmail,com