محمد حنیف خان
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار سے متعلق سات رکنی آئینی بنچ کے تبصرے سے جہاں ایک طرف دیکھے گئے خواب سچ کی تعبیر میں بدلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، وہیں دوسری جانب دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں خصوصاً سیاست دانوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے ہیں۔ عدالتوں کے ذریعہ اپنے حق میں آنے والے فیصلوں پر عدلیہ کے احترام اور عدالتی فیصلے کو بسر و چشم قبول کرنے کا بیان جاری کرنے والے خاموش ہیں۔وہ ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے یہ بیانیہ قائم ہوسکے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سماجی تفریق کی موجب ہے جہاں غیر مسلموں کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے اور ان کا حق سلب کیا جا رہاہے۔ چونکہ یہ وقت ضمنی انتخابات کی تشہیر کاہے، ایسے میں یہ بیانیہ قائم کرنے کا ان کے پاس اچھا موقع بھی ہے اور ان کے لیے فائدے مند بھی۔یوپی کے وزیراعلیٰ ابھی چار دن قبل علی گڑھ ایک انتخابی جلسے میں تشہیر کے لیے تشریف لائے تھے، جہاں انہوں نے عوام کی بنیادی ضروریات، علاج و معالجہ، ملازمت، آزوقہ حیات اور بجلی پانی کے ساتھ ہی آسان سفر وغیرہ جیسے اہم امور کے بجائے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو موضوع بنایا، جس میں انہوں نے سات رکنی آئینی بنچ کے ریمارکس اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی ادارہ ہونے کے اسباب و وجوہ پر گفتگو کے بجائے یہ بات کہی کہ یہ معاملہ عدالت میں ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جو سرکاری ٹیکس سے چلتا ہے، جہاں کسی طرح کا ریزرویشن نافذ نہیں ہے جس کی وجہ سے ایس سی اور ایس ٹی کے بچوں کو یہاں داخلہ نہیں مل پاتا، ہندوؤں کو ملازمت نہیں مل پاتی جبکہ دوسری یونیورسٹیوں میں یہ ریزرویشن نافذ ہے۔ ان کی گفتگو سے عوام میں یہ پیغام گیا کہ اس ادارے پر مسلمانوں کا قبضہ ہے جو آپ کا حق سلب کر رہے ہیں جس کی وجہ دائیں بازو کی سیاسی پارٹی کے علاوہ دیگر سبھی پارٹیاں ہیں۔ جبکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہاں بھی ریزرویشن نافذ ہو اور آپ کے بچوں کو یہاں تعلیم کا موقع ملے اور آپ کو یہاں ملازمت دی جائے۔ بادی النظر میں محترم وزیراعلیٰ کی گفتگو مبنی بر حقیقت اور حق کے لیے ہے لیکن در اصل ایسا نہیں ہے، انہوں نے صرف اپنے مفاد کی بات کی ہے جبکہ ان آئینی اصول و ضوابط کو نظر نداز کردیا جن کی بنیاد پر چیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی سات رکنی بنچ نے اکثریت کے ساتھ اقلیت کے حق میں فیصلہ دیا۔ اپنے فیصلے/تبصرے میں چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اقلیتی ادارے کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد کے ساتھ قائم کیے جاتے ہیں۔ اقلیتی اداروں میں ریاستی ضابطوں کا اطلاق جائز ہے، لیکن اس سے ادارے کے اقلیتی کردار کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تعلیمی ادارہ صرف اقلیتی برادری کے مقاصد کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس سے بنیادی طور پر اس کمیونٹی کو فائدہ ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا تعین کہ کوئی ادارہ مخصوص کمیونٹی کے ثقافتی تانے بانے کو محفوظ رکھنے کے مقصد سے قائم کیا گیا تھا، معلومات کے بنیادی ذرائع جیسے یونیورسٹی کی تشکیل کی دستاویزات، خطوط، تقاریر، ادارے کے قیام میں شامل اثاثے، اس کی تخلیق کے وقت آئیڈیا کو نافذ کرنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات وغیرہ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔
محترم وزیراعلیٰ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حق سلبی اور ریزرویشن نہ دیے جانے کی بات کہہ کر عوام کو یہ پیغام تو دے دیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ ادارہ ہے جو ہندو اکثریت کو ریزرویشن نہیں دے رہاہے مگر وہ آئین کو بھلا بیٹھے جو صاف صاف کہتاہے :
آئین کی دفعہ30(1) کے تحت مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے لحاظ سے تعلیمی ادارہ قائم کریں اور اسے چلائیں جبکہ دفعہ 30(2)کے تحت ریاست کو ان اداروں کے اقلیتی کردار سے بغیر چھیڑ چھاڑ کے ان کی معاشی کفالت کرنا ہوگا۔ دفعہ15(5)کے تحت وہ ایس سی اور ایس ٹی طبقات کو ریزرویشن دینے سے آزاد ہوں گے، اسی طرح ان کو یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنی کمیونٹی کے طلبا و طالبات کے لیے 50فیصد سیٹیں ریزرو کردیں مگر یہاں مسلمانوں کے لیے ریزرویشن کے بجائے ان بچوں کے لیے50فیصد سیٹیں ریزرو ہیں جنہوں نے انٹر یہیں سے کیا ہو، خواہ وہ کسی بھی بھی مذہب یا طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔
در اصل سات رکنی بنچ نے ٹی ایم اے پائی فاؤنڈیشن و دیگر بنام ریاست کرناٹک و دیگر 2002 کے معاملے کو بطور نظیر سامنے رکھا جس میں یہ کہا گیا کہ اقلیت کی حیثیت کا تعین ریاست کی آبادیاتی ساخت کی بنیاد پر ہوگا جس کے لیے قومی آبادیاتی تناسب کو پیمانہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ مذہبی یا لسانی اقلیتوں کا تعلیمی اداروں کے قیام اور انتظام کا حق مطلق نہیں ہے۔اس سلسلے میں اراتریکا بھومک (Aaratrika Bhaumik) کا ’دی ہندو‘ میں12 نومبر کو ایک مضمون بعنوان”How the Supreme Court cleared the decks for AMU to assertion its number status” شائع ہوا ہے جو کافی دلچسپ اور اہم ہے کہ عدلیہ نے تمام رکاوٹوں کے باوجود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک اقلیتی ادارہ ہونے کا کیسے راستہ صاف کیا۔
یہ ایک حقیت ہے کہ دستاویزی حقائق اور سیاست دانوں کی گفتگو میں زمین و آسمان کا بُعد ہوتاہے، اول الذکر جہاں بنیادوں کی بات کرتے ہوئے حقوق کو محفوظ کرتاہے وہیں ثانی الذکر ان سے اغماص کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مفادات پر نظر رکھتاہے اور اس معاملے کو ایسے پیش کرتاہے جس سے وہ عوام/رائے دہندگان کی توجہ حاصل کرسکے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نہ صرف ہندوستانی مسلمانوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز ہے بلکہ یہ ہمارے مخلص بزرگوں کا اخلاص بھی ہے۔ سرسید احمدخاں نے جدید علم کی نہر بہانے اور علی گڑھ کو مدینۃ العلم بنانے کا جو خواب دیکھا تھا، ان کے زیر سایہ فکری جلاپانے والے محسن الملک اور وقار الملک جیسے بزرگوں نے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا۔1905 سے لے کر 1920 یعنی 15 برس کا عرصہ جو گزرا ہے، اس میں جو محنت ان بزرگوں نے کی تاکہ ایم اے او کالج کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنایاجاسکے، وہ ہندوستان کے کسی بھی ادارے کے بانی اور ان کے ساتھیوں نے نہیں کی کیونکہ سرسید احمد خاں نے اپنے مذکورہ اخلاف کے ذہن میں سماجی حقائق گزیں کردیے تھے کہ مسلمان اس وقت علمی اعتبار سے سب سے زیادہ تہی دامن ہیں۔ ان بزرگوں کی محنت کے بجائے اب سیاست دانوں کو ٹیکس کی وہ رقم دکھائی دیتی ہے جو حکومت اقلیتی اداروں پر صرف کرتی ہے جبکہ یہ ان کا آئینی حق ہے اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے اداروں کی مالی اعانت کرے۔سات رکنی بنچ نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ کسی بھی ادارے کو اقلیتی ادارہ قرار دیے جانے میں یہ ضرور دیکھا جائے کہ وہ ادارہ کن لوگوں نے کس طبقے کے لیے قائم کیا تھا اگرچہ اس سے دوسرے طبقات کو بھی فائدہ پہنچا ہو، تب بھی اگر اقلیتی طبقے کے افراد نے اپنے طبقے کے لیے ادارہ قائم کیاہے تو وہ اقلیتی ہی قرار پائے گا۔
1967 میں اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی منسوخی اور 1972 میں ترمیمی ایکٹ کی منظوری کے بعد اے ایم یو کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لیے پورے ہندوستان میں تحریک زوروں پر شروع ہوگئی تھی۔اس وقت آل انڈیا مسلم یونیورسٹی ایکشن کمیٹی نے 15 صفحات پر مشتمل کتابچہ ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیا تھی اور کیا بنادی گئی‘‘ شائع کیا، جس میں ایم اے او کالج سوسائٹی کے دستاویز کا ترجمہ بھی شامل کیا گیا تھا۔ ایم اے او کالج سوسائٹی، سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ1810 کے تحت رجسٹرڈ تھی جس کے دستور کی دفعہ 2 میں ایم اے او کالج کے اغراض و مقاصد درج تھے۔ ترجمہ:کالج کے اغراض و مقاصد اصلاً مسلمانوں کی تعلیم ہے، البتہ دستور کے قواعد وضوابط کے تابع ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی تعلیم دی جاسکتی ہے، گورنمنٹ کی بے جا مداخلت سے متعلق دفعہ149رکھی گئی تھی۔ ترجمہ:گورنمنٹ اور ڈائریکٹر تعلیمات کو کوئی حق نہیں ہوگا کہ کالج کے اندرونی، تعلیمی، انتظامی، بورڈنگ ہاؤس، کالج اسٹاف کی تقرری، برخاستگی اور تبادلہ نیز تعلیم میں کسی قسم کی مداخلت کرے۔
ایم اے او کالج نے جب یونیورسٹی کی شکل اختیار کی تو اس کے اغراض و مقاصد میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، صرف ضابطے کی خانہ پری کے لیے ایکٹ 40(1920) پاس کیا گیا اور یہ کالج یونیورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔
سات رکنی آئینی بنچ نے 500 سے زائد صفحات کے عدالتی دستاویز میں مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی ہونے سے متعلق جن اصول و ضوابط کی وضاحت کی ہے، ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کوئی ضروری نہیں کہ ایک اقلیتی ادارہ کی منتظمہ اسی طبقے کی ہو۔یہ وہ شق ہے جو ایسے دروازے کھول سکتی ہے جس سے انتظامی امور کی ذمہ داری یہاں کے منتظمہ اعلیٰ ادارے یونیورسٹی کورٹ کے بجائے مرکزی حکومت کے ہاتھوں میں چلی جائے، یہ بہت نقصان دہ ہوگا۔جس طرح سے آئین نے اقلیتوں کو ہر طرح کے حقوق آئینی سطح پر دیے ہیں مگر زمینی حقیت کچھ اور ہے۔ اسی طرح اگر خدانخواستہ ایسا ہوگیا تو ادارہ اقلیتی ہونے کے باوجود اس مسلم اقلیت کو فائدہ نہیں پہنچاسکے گا جس کیلئے 50 برس سے زائد عرصے سے لڑائی لڑی جاری ہے۔ ارباب حل و عقد کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ خواب شرمندۂ تعبیر ہو، نہ کہ وہ آہ بن کر رہ جائے۔
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS