عبدالماجد نظامی
اکیسویں صدی کا ذکر جب اہل قلم اور ارباب دانش فکر وعمل کرتے ہیں تو ہمیشہ اس کو علمی بلندی، فکری وسعت اور انسانیت نوازی جیسی اعلیٰ قدروں کو بڑھاوا دینے والے عہد کے طور پر کرتے ہیں۔ اس میں بہت حد تک سچائی بھی ہے کیونکہ اس دور میں کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں نے جتنی ترقی کی ہے، اس کی مثال ماضی کی صدیوں میں بالکل نہیں ملتی۔ علامہ اقبالؔ نے ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے نوجواں کا ذکر ان کے حوصلہ کی پرواز کو دھیان میں رکھ کر کیا تھا لیکن آج وہ فلسفہ حقیقت کا روپ اختیار کر چکا ہے اور سچ مچ چاند اور دیگر سیاروں تک رسائی ہو چکی ہے اور اس سے بھی آگے کی پلاننگ جاری ہے جس کے مطابق انسانوں کو وہاں بسانے کا انتظام کیا جائے۔ ہمارا ملک ہندوستان بھی فلکیات کے میدان میں کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلہ پیچھے نہیں ہے اور اس کا مستقبل نہایت تابناک ہے اور ہمیں اس کی ترقی کے ہر پہلو پر ناز ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک تلخ اور بھدی حقیقت بھی ہماری ملکی سیاست کا مقدر بن چکی ہے جو بہت قدیم تو نہیں ہے لیکن گزشتہ ایک دہائی میں اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ اس بھدی سیاسی حقیقت کے تحت ملک کی مسلم اقلیت کو دیوار سے لگانے کی کوشش مسلسل ہو رہی ہے۔ انہیں تکلیف پہنچانے، جان سے مار ڈالنے اور ان کے گھروں کو مسمار کردینے جیسے جرائم کا ارتکاب ارباب اقتدار کی پشت پناہی بلکہ ان کی تحریض سے ہو رہا ہے۔ اسی اقلیت مخالف سیاسی نظریہ کی بنا پر اترپردیش کے وزیراعلیٰ نے ہر چھوٹی بڑی غلطی یا محض بے بنیاد الزام کو بہانہ بناکر بطور خاص مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانا شروع کر دیا اور میڈیا نے شب و روز اس شنیع عمل کو قابل تقلید پالیسی کے طور پر ملک بھر میں پھیلانا شروع کر دیا جس کا منفی اثر یہ ہوا کہ اترپردیش سے چل کر یہ مذموم پالیسی ملک کی دوسری ریاستوں تک بھی پہنچ گئی۔ اس میں بھی کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ تقریباً تمام ریاستیں جہاں اس مذموم پالیسی پر عمل کیا گیا وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہی سرکاریں تھیں۔ اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس پالیسی کو جب میڈیا کے شرمناک تعاون کی بدولت عوامی حمایت میں تبدیل کیا گیا تو پھر انتخابات جیتنے کی غرض سے اترپردیش کے وزیراعلیٰ کو ممتاز مقرر کے طور پر دعوتیں دی جاتی رہیں اور انہیں ’’بلڈوزر بابا‘‘ جیسے لقب سے پکارا گیا۔ گویا یہ کوئی ایسا عمل ہو جس پر فخر کیا جا سکے۔ حالانکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی انسان کی انسانیت زندہ ہو اور اس کے دل میں دردمند دل دھڑکتا ہو تو وہ کسی بھی خاندان اور پریوار کو بے گھر کرنے، اس کے بوڑھے ماں باپ اور ننھے ننھے بچے- بچیوں اور خواتین کو ایک پل میں کھلے آسمان کے نیچے بے آسرا چھوڑ دینے پر خوشی منانے کے بجائے شرم کے سمندر میں ڈوب جائے گا اور احساس جرم کے مارے ہر وقت قعر ندامت میں پڑا رہے گا۔ لیکن یہ اس ملک کی بد بختی اور شومئی قسمت ہی کہی جائے گی کہ ملک کی ترقی کا ڈھنڈورہ پیٹ کر سیاست کرنے والے ہی اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو دشمن مان کر اور ان کے وجود کو ایک مسئلہ کے طور پر پیش کرکے انہیں حاشیہ پر ڈالنے کی ضد میں لگے ہوئے ہیں۔ بھلا یہ ملک اتنی بڑی آبادی کو الگ تھلگ کرکے اور اس کے خلاف محاذ آرائی کرکے کبھی بھی حقیقی معنی میں ترقی کرسکتا ہے؟ اس کا امکان تقریباً معدوم ہے۔ کوئی خبطی العقل انسان ہی ایسی پالیسیاں بنا کر ترقی کے خواب دیکھ سکتا ہے۔ ایسا کرنا ان اصولوں اور قدروں کے بھی خلاف ہے جن کی پاسبانی کی ذمہ داری دستور ہند نے لی ہے۔ یہ بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تاخیر سے ہی سہی لیکن سپریم کورٹ نے بلڈوزر ظلم کے خلاف جو اپنا فیصلہ سنایا ہے، وہ دستوری روح کا صحیح معنی میں محافظ ثابت ہوا ہے۔ اس فیصلہ میں کوشش کی گئی ہے کہ بیمار ذہن افسران اور چاپلوس نوکر شاہوں کے لیے کوئی ایسا چور دروازہ کھلا نہ رہ جائے جس کا استعمال کرکے وہ اپنی ماضی کی روش پر قائم رہیں اور ملک کے شہریوں کو اپنی انا اور ہٹ میں آ کر بے گھر کرتے رہیں۔ اس فیصلہ میں جو رہنما اصول سپریم کورٹ کی جانب سے طے کیے گئے ہیں، ان کی روشنی میں اگر کام کیا گیا تو مظلومین کی داد رسی ہوتی رہے گی اور مختصر سے نوٹس پر بلڈوزر کا غیر قانونی استعمال نہیں ہوگا۔ کسی بھی عمارت کو مسمار کرنے سے قبل پندرہ دن کا نوٹس دینا ضروری ہے تاکہ اس سلسلہ میں قانونی چارہ جوئی کی جاسکے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی افسر اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس صورت میں اس کو اپنی جیب سے اس کی تعمیر نو کا انتظام کرنا ہوگا۔ اس ملک کے مظلوم عوام کو یقینا اس فیصلہ سے بڑی راحت ملے گی اور ہندوستانی معاشرہ کی اخلاقی اور سیاسی پستی و انحطاط کا جو دور چل پڑا تھا، اس پر بند باندھنے کا کام بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلہ سے ہوگا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ جس ہندوستان کی علمی و سائنسی ترقی کا غلغلہ چاند اور مریخ تک پر ہے، اس کو زمین پر بھی شائستگی کے ساتھ جینے کا سلیقہ مل سکے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو ملک کی تاریخ میں ہمیشہ ایک سنگ میل کی طرح دیکھا جاتا رہے گا جس کو بنیاد بناکر آئندہ بھی مظلوم افراد اور جماعتیں اپنے درد کا مداوا تلاش کریں گی۔ جمعیۃ علماء ہند اور وہ تمام وکلاء و افراد اس سلسلہ میں مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اس مقدمہ کی پیروی کی اور سپریم کورٹ تک اس مسئلہ کو پہنچا کر کامیابی کے ساتھ اس کا فیصلہ مظلومین کے حق میں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS